• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے حالیہ انتخابات میں کمیونسٹوں کی شکست بھارت کی بائیں بازو کی سیکولر سیاست کیلئے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے. دل چاہتا ہے کہ ایسی جمہوریت کیلئے دل کو دہلادینے والا ایک نوحہ لکھوں جس میں ایمانداروں کی قدر گھٹتی جارہی ہے کیونکہ پچیس سال تک ریاست پر حکومت کرنیوالے وزیر اعلیٰ مانک سرکار انتہائی ایماندار اور سادہ منش انسان ہیں جو ملک کے غریب ترین سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جن کا نہ تو اپنا کوئی ذاتی گھر ہے اور نہ ہی کوئی کار۔ بحیثیت وزیر اعلی وہ اپنی تنخواہ پارٹی کو عطیہ کرتے تھے جسکے بدلے ان کو ذاتی خرچ کیلئے دس ہزار روپے ماہانہ مل جاتے تھے، دوران اقتدار ان کی بیگم اکثر عام انسانوں کی طرح بغیر کسی سیکورٹی یا سرکاری پروٹوکول کے عام شہریوں کی طرح رکشے میں سفر کرتی نظر آتی تھیں. بھارت میں دائیں بازو کی سیاست کا اب یہ حال ہے کہ ان کی حکومت اب سکڑ کر مالابار کی ساحلی ریاست کیرالہ تک رہ گئی ہے۔ہندوتوا کے نفرت انگیز اور پر تشدد طوفان کے سامنے سات عشروں پر محیط سیکولر سیاست دم توڑتی نظر آ رہی ہے جو نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے کیلئے بھیانک خطرے کا الارم ہے،ملک کی 29 ریاستوں میںسے 21 میں اکثر یت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی حکومت ہے جبکہ کچھ ریاستوں میں وہ اپنے حلیفوں کے ساتھ ملکر حکومت میں شراکت دار ہے۔
تین مارچ کو بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ واقع ریاست تریپورہ کے انتخابات میں بی جے پی کی حیرت انگیز جیت سے کمیونسٹوں کا پچیس سالہ اقتدار ختم ہوگیا.2014 ء میں وزیراعظم نریندرا مودی کے اقتدار میں آنے کے وقت شمال مشرق کی سات ریاستوں میں ہندتوا نواز جماعتوں کا اثر انتہائی محدود تھامگر مودی کے تین سالہ حکومت کے بعد اب یہ حال ہے کہ چار ریاستوں میں بی جے پی بلا شرکت غیرے حکومت کررہی ہے جب کہ دو ریاستوں – میگھالیہ اور ناگالینڈ – میں یہ حکمراںاتحاد کا حصّہ بننےجارہی ہے حالانکہ ان دونوں ریاستوں میں عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ اس خطے میں اب میزورم واحد ریاست ہے جہاں اپوزیشن کانگریس کا کنٹرول ہے۔انتخابی نتائج کے اعلان ہوتے ہی بی جے پی کے ارکان نے جشن کی آڑ میں مخالفین کے خلاف پر تشدد کارروائیاں شروع کیں،کامیابی کے فوراً بعد نئی دہلی میں وزیراعظم مودی نے پارٹی ہیڈ کواٹر میں خطاب کرتے ہوئے اپنی جیت کو کمیونسٹوں کے خلاف ایک نظریاتی فتح سے تعبیر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ ملک کو ’کمیونسٹ مُکت‘ یعنی کمیونسٹوں سے پاک کرائیں گے، اس اعلان کی دیر تھی کہ تریپورہ کے طول و عرض میں کمیونسٹوں کے خلاف ایک منظّم اور پر تشدد مہم کا آغاز ہوا جس میں کمیونسٹ پارٹی کے اراکین، ان کی املاک اور دفاتر کو نشانہ بنایا گیا، صرف دو دنوں میں پندرہ سو سے زائد رہائشی مکانات پر حملے کئے گئے،دو سو مکانات کو خاکستر کیا گیا، 213 پارٹی دفاتر کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 208 دفاتر پر قبضہ کیا گیا، دور دراز گاؤں میں تشدد کے بیسوں واقعات پیش آئے جو میڈیامیں رپورٹ نہ ہو سکے،مثلاً جرانیہ نامی گاؤں میں ایک عورت کو بم حملے میں مارا گیا جبکہ ایک اور شخص کو نہایت ہی بہیمانہ طریقے سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے قتل کردیا گیا۔وزیراعظم کی نظریاتی فتح کے اعلان کے اڑتالیس گھنٹے کے بعد جنوبی تریپورہ کے بیلونیہ قصبے کے کالج اسکوائر میں بی جے پی کے ایک گروپ نے بلڈوزر کے ذریعے لینن کا ایک مجسمہ گرادیا جو 2013 ء میں کمیونسٹ حکومت کے اکیس سال پورے ہونے پر نصب کیا گیا تھا،فائیبر گلاس سے تعمیر کردہ یہ مجسمہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کیلئے خاص اہمیت کا حامل تھا جو یہاں سیاسی اور سماجی معاملات کے بارے میں ایک دوسرے سے اظہار خیال کرتے تھے،مجسمے کو گرانے کی کارروائی ’بھارت ماتا کی جئے‘ کے فلک شگاف نعروں میں ہوئی، اس کے بعد مجسمے کا سر الگ کردیا گیا جس کے بعد ہوا میں فٹبال کی طرح اچھالا گیا، اس تمام کارروائی کو نہ صرف عکس بند کیا گیا بلکہ اس کی بی جے پی کے کئی سینئر عہدیداروں نے سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف کافی تشہیر کی بلکہ فاتحانہ انداز میں اس کو سراہا۔
سب سے پہلے بی جے پی کے مرکزی صدر رام مادھو نے مجسمے کو گرائے جانے کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے اسے بدلتے وقت کی جانب ایک اشارہ قرار دیا، اس کے بعد ریاست کے گورنر تتھاگاتارائے نے بھی یہی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے ہندو بلوائیوں کو نو منتخب جمہوری حکومت کے نمائندوں سے تشبیہ دی،پارٹی کے ریاستی ترجمان گری راج سنگھ نے دعوی کیا کہ یہ مجسمہ ان مظلوم لوگوں نے گرایا جو کمیونسٹوں کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے تھے، بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ سبرامنین سوامی نے لینن کو ’’ایک قسم کا دہشت گرد‘‘ قرار دیتے ہوئے بھارت میں اس کے مجسمے کی موجودگی پر سوالات اٹھائے ، پارٹی کے ایک اور سینئر عہدیدار ایچ راجہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ: ’’لینن کون ہے؟ ہندوستان میں اس کی کیا تُک بنتی ہے؟‘‘ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ لینن کے مجسمے کی تباہی کے بعد تامل ناڈو میں سماجی مصلح پریار کے مجسموں کو بھی ختم کیا جائے گا جنھوں نے برہمنوں کی بنائی ہوئی ذات پات پر مبنی سماجی تقسیم کے خلاف بڑی زور دار جدوجہد کی جس کی وجہ سے جنوبی بھارت کے عوام میں ان کی کافی عزت و تکریم کی جاتی ہے، پریار کیخلاف کچھ اسی طرح کے جذبات کا اظہار بی جے پی کے یوتھ ونگ کے نائب صدر ایس جی سوریا نے بھی کیا،ان بیانات کیخلاف جب سخت عوامی ردعمل سامنے آیا تو بی جے پی کو ناچار پیچھے ہٹنا پڑا اور ایچ راجہ کو اپنے پیغام سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے فیس بک سے حذف کرنا پڑا۔
تریپورہ میں کمیونسٹ لیڈر اور اسمبلی کے ڈپٹی ا سپیکر پابترا کار نے لینن کے مجسمے کی مسماری کو طالبان کی جانب سے بامیان میں گوتم بدھ کے تاریخی مجسمے کو تباہ کرنے کی کارروائی سے تشبیہ دی،اس تباہی سے شاید ہندو شدت پسند دوسری خلیجی جنگ کے دوران امریکی فوجیوں کی جانب سے بغداد میں صدام حسین کے مجسمے کو گرا کر ان کی نقل میں فتح کا اعلان کرنا چاہتے تھے لیکن پورے ملک سے جس طرح کا سخت رد عمل سامنے آ رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ امریکیوں کی طرح ہندتوا وادی قوتوں کا بھارت کو مکمل طور فتح کرنے کا خواب بھی شاید کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو۔
ایک تصحیح …گزشتہ ہفتے میں نے اپنے کالم میں ’ایک سرکاری ملازم کی کہانی‘ کے عنوان سے ایک سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ سید ارتقاء احمد زیدی کی سوانح حیات ’’ارتقاء‘‘ پر تبصرہ لکھا تھا، اس میں غلطی سے درج ہوا کہ موصوف ڈپٹی پلاننگ کمیشن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اس غلطی پرمعذرت کے ساتھ ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی تصحیح کرتا ہوں کہ محترم زیدی صاحب ریٹائرمنٹ کے وقت جوائنٹ سیکرٹری فنانس کے عہدے پر فائز تھے۔

تازہ ترین