• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیجیٹل عہد کی نئی اجاراہ داری

سلیم انور عباسی

ای-کامرس کا وسیع کاروبار کرنے والی چینی کمپنی علی بابا کے بانی جیک ما نے ایک نیا قدم اٹھانےکی تجویز دی ہے۔ وہ ای-کامرس کے عالمی قواعد و ضوابط طے کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا اعلان انہوںنے بوآو فورم برائے ایشیا میں کیا۔ انہوں نے کہا “کاروباریوں کو حکومتوں، این جی اوز اور دیگرتنظیموں کی قیادت کرنی چاہیے۔

”جیک ما کی تجویز ہے کہ ایک ورلڈ ای-ٹریڈ پلیٹ فارم (ڈبلیو ای ٹی پی) تشکیل دیا جائے۔ یہ نیاپلیٹ فارم وہ کرے جو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نہیں کرپارہی۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اس تجارت کےعالمی قوانین یا قواعد و ضوابط کی انچارج رہے گی جو آن لائن نہیں ہوتے بلکہ آف لائن ہیں۔علی بابا کمپنی اپنا مجوزہ منصوبہ جی-20 اجلاس میں پیش کرے گی جو اس سال کے اواخر میںچین کے شہر ہان ژو میں ہونا ہے۔

سادہ لفظوں میں کہا جاسکتا ہے جو اپنا کاروبار بذریعہ ای-کامرس کرتے ہیں وہی ای-کامرس کےقواعد و ضوابط طے کرنے کے لیے تجاویز لائیں گے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس کاروبار کے بارےمیں ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔بظاہر جیک ما کا کہا سیاسی قوتوں کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ کارپوریٹس اپنی طاقت کے بل بوتے پر حکومتوں کے کرداکو براہ راست سیاسی چیلنج پیش کررہی ہیں۔لیکن بوآو فورم میں شریک چین کے ایک سابق نائب وزیر انڈونیشیاکےوزیرتجارت، اور انٹر امریکا ڈویلپمنٹ بینک کے صدر نے ان کی باتوں پر مثبت ردعمل ظاہر کیا۔

دراصل یہ سمجھنےکے لیے کہ ہو کیا رہا ہے، ہمیں تھوڑا تناظر دیکھنا پڑے گا۔آج کے ڈیجیٹل عہد میں جن کے پاس سجی نیٹ ورکس کےسافٹ ویئر کا کوڈ اور نقشہ(آرکیٹیکٹ) ہے وہی اس شعبے کے قواعد و ضوابط طے کرتے ہیں۔معلومات کی فراہمی کے بندوبست میں گوگل کا کوئی ثانی نہیں۔ اس شعبے میں گوگل کی اجاراداری ہے اور یہ اسے اپنے کاروباری مفادات کے لیےاستعمال کرتا ہے۔ اب مواد کے بارے میںفیصلہ گوگل کرتا ہے۔ 

کون سا مواد انٹلیکچوئل پراپرٹی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے یا کس میںہتک عزت کی گئی ہے، کسے ہٹانا ہے کسے نہیں یہ گوگل طے کرتا ہے۔ حالانکہ عموماً اس نوع کےکام سرکار کے ہوا کرتے ہیں۔

اسی طرح فیس بک کی سوشل میڈیا پر اجارہ داری ہے اور یہ اسی کے عالمی قواعد و ضوابط خودبناتی ہے۔ یہی کچھ اپنی موبائل ایپ ٹیکنالوجی میں ایپل کمپنی کرتی ہے۔ اس کا واحد مقابل گوگلکا اینڈرائیڈ نظام ہے۔جو کوئی اشیا سپلائی کرنے والوں اور صارفین کے درمیان ڈیجیٹل رابطے قائم کرنے میں پہل کر لیتاہے اس کی اجارہ داری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

 کیونکہ وہ اشیا سپلائی کرنے والے اور صارف کےدرمیان تعامل کے قیمتی ڈیٹا کا مالک ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے وہ جلد اجارہ داری بنانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ جس نے جس شعبے میں پہل کی ڈیجیٹل دنیا میں وہ اس کا مالک بن بیٹھا۔ ایسی کئی مثالیں ہیں۔ جیسے رہائشی بکنگ کرنے والا ایئربی این بی کا نظام، شہر کی ٹرانسپورٹ کے لیے اوبرکا ںظام، یاای-کامرس کے لیے امازون یا علی بابا۔سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو دیگر اہم ڈیجیٹل میدانوں میں ایسی ہی اجارہ داریاں قائم ہوجائیں گی۔اور تعلیم، صحت اور زراعت جیسے بنیادی شعبے بھی ان کے نرغے میں ہوں گے۔

مونسانٹو ایک مینوفیکچرنگ کمپنی تھی لیکن اب یہ انٹلیچوئل حقوق کے سہارے کھڑی ہے۔ آنےوالے دنوں میں یہ زرعی ڈیٹا کی کمپنی ہوگی۔ یہ بڑے اور چھوٹے ہر پینےکی کاشت کاری کےڈیٹا پر اجارہ داری قائم کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ پھر کھیت کی زمین کی اقسام سے لے کر موسم کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل اس کے پاس ہوں گی۔ زرعی مداخلت پر مکمل کنٹرول اس کے پاس ہوگا۔ وہ اس قابل ہوگی زرعی پیداوار کی منڈی پراجارہ داری قائم کر سکے۔

اسی طرح گوگل اور ایپل داخل ہونے کے بعد آٹوموبائل کا شعبہ بڑی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ جرمن آٹو موبائل کمپنی ڈالرکے چیف ایگزیکٹو نے حال ہی میں اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ روایتی کارساز کمپنیاں بیرون ملک منتقل ہوکر فاکس کان (چین میں آئی فون بنانے والی کمپنی) بن کر رہ جائیں گی، جبکہ اہم ڈیجیٹ آپریٹنگ سسٹم دوسری کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہوں گے۔

اہم شعبوں کے ڈیجیٹل ہونے سے اہم نئی ترتیب سامنے آرہی ہے۔ اس سے بڑی بڑی اجارہ داریاں بن گئی ہیں۔ ان کا کردار کلیدی ہوگیا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں ہونے والے رابطوں کا کنٹرول ان کے پاس ہے۔ 

ڈیٹا کا کنٹرول بھی انہی کے پاس ہے۔ یہ دونوں طرح کے کنٹرول ایک دوسرے سے منسلک ہیںکیونکہ ڈیجیٹل دنیا میں ہونے والے تعامل ہی سے بیشتر ڈیٹا وجود میں آتا ہے۔اجارہ دار کمپنیوں سے باہر بھی اس صنعت میں اچھی خاصی ایجادات ہورہی ہیں۔ لیکن اجارہ دارکمپنیاں جلد انہیں خرید لیتی ہیں۔یہ کمپنیاں اپنے مفادات کے لیے ادغام اور پارٹنرشپ کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شعبے میںچند کمپنیاں ہی غالب ہیں۔ ان میں کچھ تو مقابلہ بازی کررہی ہیں جبکہ دوسری باہمی تعاون کررہی ہیں۔جن کے درمیان مقابلہ ہے وہ بھی تعاون کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ (مائیکروسافٹ اور گوگل نے حال ہی میں اتفاق کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں نہیں جائیں گے)۔ بڑی اجارہ داری کے درمیان یہ بنیادی مفاہمت ہے کہ وہ خود ہی اپنے اپنے شعبے کے قواعد و ضوابط طے کریں گے۔اور سیاسی نظاموں یا سیاسی نگرانی کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیں گی۔

دنیا کے اہم شعبوں میں ایسی تبدیلیاں آرہی ہیں جو ڈیجیٹل کمپنیوں کی مرہون منت ہیں ملک اس کے حوالے سے پالیسی بنانے یا قواعد لاگو کرنے سے بہت کم گنجائش باقی ہے۔ گوگل اور فیس بک کے بعد ائربی این بی اور اوبر نے بھی قواعد ضوابط پر من مرضی کرنا شروع کردی ہے۔ وہ اپنےصارفین سے کہ چکے ہیں کہ وہ سرکاری قواعد ضوابط کے خلاف سیاسی احتجاج کریں۔

 اس کی پہلےنظیر نہیں ملتی کہ ایک کارپوریشن کھلے عام سیاسی قوت کا یوں اظہار کرے۔اجارہ داری کے لیے بڑی کمپنیاں ایک دوسرے کے ساتھ رسمی اور غیر رسمی اتحادوں میں شامل ہورہی ہیں لیکن جو قواعد و ضوابط یا معیارات وہ بنارہی ہیں ان میں عوام کا کوئی کردار نہیں۔کمپنیوں کی قیادت میں پالیسی اور قانون سازی کے لیے ایک نئی طرز کا شعبہ ابھر رہا ہے جسےملٹی ا سٹیک ہولڈرازم کہتے ہیں۔ ان میں چیدہ چیدہ حکومتیں اور سول سوسائٹی کے کردار شامل ہوتے ہیں۔ یہ کمپنیوں کی طے کردہ حد سے باہر فیصلے نہیں کرتا۔جناب جیک ما نے جو تجویز پیش کی ہے وہ بھی اپنی مرضی کے انٹرنیٹ/ ڈیجیٹل قواعد و ضوابط لانے کی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے۔ 

ہر شعبے میںچند کمپنیاں ہی غالب ہیں۔ ان میں کچھ تو مقابلہ بازی کررہی ہیں جبکہ دوسری باہمی تعاون کررہی ہیں۔جن کے درمیان مقابلہ ہے وہ بھی تعاون کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ (مائیکروسافٹ اور گوگل نے حال ہی میں اتفاق کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں نہیں جائیں گے)۔ بڑی اجارہ داری کے درمیان یہ بنیادی مفاہمت ہے کہ وہ خود ہی اپنے اپنے شعبے کے قواعد و ضوابط طے کریں گے

حکومتیں اور عوامی مفادات کے لیے کام کرنے والے تیزی سے ہونے والی ڈیجیٹل تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر پارہے۔ حکومتیں ڈیجیٹل تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں لیکن وہی جو کمپنیاں ان کےلیے بچا چھوڑیں۔ وہ یہ نہیں سمجھ رہیں کے ان کے پاؤں سے سیاسی زمین کس طرح سرکتی جار ہی ہیں۔عوامی مفادات کے لیے کام کرنے والی زیادہ تر تنظیمیں بھی ابھی تک ڈیجیٹل عہد سے پیدا ہونےوالے مواقع پر شادمانے بجانے سے باز نہیں آئیں۔ وہ پیدا ہوتے بڑے خطرے کو نہیں بھانپ رہیں۔اور اسی دوران میں سج پر کارپوریٹ کا غلبہ یا کارپوریٹوکریسی سر پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ 

ڈیجیٹل عہد جس سے آزادیاں ملنے کی توقع تھی اسی کے بل بوتے پر یہ ہورہا ہے۔علی بابا کی ویب سائٹ پر دعو ٰی کیا گیا ہے “جیک ما کا نصب العین ہے کہ ایک ورچوئل، ملکی سرحدوں کے آرپار ایسی معیشت وجود میں لائیں جو سیاسی پابندیوں سے آزاد ہو۔”بلاشبہ اس معیشت کی قیادت علی بابا جیسی عالمی کارپورشنیں کریں گی۔لہٰذا اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ ایسے سیاسی ادارے تعمیر کیے جائیں جو ڈیجیٹل عہد کےزمینی حقائق سے نمٹ سکیں۔ یہ کام قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہونا چاہیے۔

تازہ ترین
تازہ ترین