• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شرافت، تحمل، برداشت اور بردباری اصولی سیاست کے بنیادی وصف تصور کئے جاتے ہیں اور قائد اعظم نے جس جمہوری نظام کو پاکستان کی بنیاد بنایا، یہی اوصاف اس کا لازمی تقاضا تھے لیکن جس طرح قیام پاکستان کے کئی دوسرے مقاصد رفتہ رفتہ پس منظر میں چلے گئے اسی طرح ہماری سیاست بھی ان خوبیوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ اتوار کو لاہور کی دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ میں ملک کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ جو مذموم واقعہ پیش آیا وہ سیاسی عدم برداشت اور بداخلاقی کا انتہائی افسوسناک مظاہرہ ہے۔ نواز شریف جامعہ کی دعوت پر ایک سیمینار سے خطاب کرنے وہاں گئے تھے، جونہی وہ سٹیج پر پہنچے ایک شخص نے ان پر جوتا کھینچ مارا۔ اس کے دو ساتھی بھی ایسی حرکت کے لئے وہاں موجود تھے۔ ایک کا نشانہ خطا ہو گیا جبکہ دوسرا مارنے ہی والا تھا کہ تینوں کو سکیورٹی اہلکاروں نے پکڑ لیا۔ ایسا کرتے وقت ملزم مخصوص نعرے بھی لگا رہے تھے۔ مقدمہ درج کر کے ملزموں کو اگلے روز عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ ملک کی تقریباً ساری سیاسی قیادت نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ جامعہ کے ناظم اعلیٰ مولانا ڈاکٹر راغب نعیمی نے واقعے میں ملوث ملزموں اور اس کے ماسٹر مائنڈ کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ نواز شریف سے پہلے ان کی پارٹی کے دو اہم رہنمائوں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو بھی اسی نوعیت کے ہتک آمیز سلوک کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اتوار کو فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پر بھی جوتا پھینکنے کی کوشش کی گئی جو ملزم کی بروقت گرفتاری کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی۔ پاکستان کی سیاست میں عدم برداشت کا سب سے گھنائونا واقعہ وہ تھا جس میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ایوان ہی میں ڈپٹی اسپیکر کو قتل کر دیا گیا۔ پاکستان دو لخت ہونے کے بعد بھی سیاسی لیڈروں کی ہتک کے اکا دکا واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان میں سابق آمر پرویز مشرف کے ساتھ برطانیہ کے دورے کے دوران کسی پاکستان کی جانب سے جوتا پھینکنے کا واقعہ بھی شامل ہے یہ درست ہے کہ اس طرح کے واقعات دوسرے ملکوں میں بھی پیش آتے رہتے ہیں امریکی صدر جارج بش بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور کئی دوسرے لیڈروں کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا مگر پاکستان کا سیاسی و مذہبی کلچراس طرح کی انتہا پسندی کامتحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارا مذہب اپنے پیروکاروں کو اعتدال اور میانہ روی سکھاتا ہے۔اس سے انحراف کا راستہ تشدد اور تباہی کی طرف جاتا ہے۔ سیاست میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے مگر اسے شائستگی کی حدود میں رہنا چاہئے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر عمل کا ویسا ہی ردعمل ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا اس ضمن میں یہ کہنا درست ہے کہ جو جوتا ایک لیڈر کی طرف جاتا ہے وہ دوسروں کی طرف بھی جا سکتا ہے۔ عام انتخابات اب چند مہینوں کی بات ہیں۔ اس موقع پر تحمل اور برداشت سے کام نہ لیا گیا تو ملک میں انارکی پھیل سکتی ہے۔ انتہا پسندی کا موجودہ رجحان پچھلے تین چار سال کے دوران ہمارے بعض لیڈروں کی غیر محتاط تقریروں اور بیانات کا نتیجہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ صدر مملکت ممنون حسین نے درست کہا کہ سیاسی اختلاف شائستگی کی حد پھلانگ کر گالی گلوچ کی شکل اختیار کر لے تو ملک کے لئے خطرناک ہو جاتا ہے۔ اس لئےسیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ سب مل کر ایک متفقہ ضابطہ اخلاق مرتب کریں اور آنے والے انتخابات کے علاوہ عمومی سیاست میں بھی اس کی پابندی کریں۔ متعلقہ ریاستی اداروں کو بھی لاہور جیسے واقعات کا نوٹس لینا چاہئے اور ان کے تدارک کے لئے ایک کوڈ آف کنڈکٹ تجویز کرنا چاہئے۔ جوتے یا سیاہی پھینکنے یا اسی طرح کے دوسرے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی روایت چل نکلی تو اس سے جو آگ بھڑکے گی اس کے شعلوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ سیاست میں برداشت اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا سب کا فرض ہے اور اسی میں ملک و ملت سمیت سب کا فائدہ ہے۔

تازہ ترین