• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے لیکن ملک میں پانی کے ذخائر روز بروز کم ہوتے چلے جانے کے باوجود اس مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس کوششیں تو کجا ، حکمرانوں، منتخب نمائندوں اور سیاسی قیادتوں کی سطح پر یہ موضوع کہیں کما حقہ ٗ زیر بحث بھی نہیں لایا جاتا۔پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے حوالے سے چیئرمین واپڈا کا تازہ ترین انتباہ نہایت چشم کشا اور ہولناک ہے جس کے مطابق نئے ذخائر کی تعمیر نہ ہونے کے سبب ایک کروڑ 23 لاکھ ایکڑ میٹھا پانی ہر سال سمندر کی نذر ہورہا ہے جبکہ پانی کا غیر ضروری استعمال روکنے کے لیے بھی ضروری اقدامات عمل میں نہیں لائے جارہے ہیں،بھارت ہمارے حصے کے پانی پر قبضہ جمارہا ہے، صورت حال سے نمٹنے کے لیے متعدد ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے اور بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں سے روکنے کے لیے اس معاملے کو عالمی سطح پر مزید اجاگر کرنا ضروری ہے لیکن وفاق اور صوبوں کی جانب سے نئے آبی ذخائر کی تعمیر اور دیگر ضروری اقدامات میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ ہورہا ہے جبکہ ہمارے پاس مزید وقت ضائع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور نئے آبی ذخائر کے بغیر گزارا ممکن نہیں۔چیئرمین واپڈا کا یہ انتباہ حقائق کے عین مطابق ہے۔ خود سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1951 میں پاکستان میں ہرشخص کوسالانہ 5260 کیوبک میٹرپانی دستیاب تھا جب کہ آج پانی کی فی کس دستیابی 900 کیوبک میٹر سے بھی کم رہ گئی ہے اوراگر نئے آبی ذخائرنہ بنائے گئے اورسیلابی پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کا اہتمام نہ کیا گیاتو آئندہ دس پندرہ سال میں پانی کی فی کس دستیابی کی شرح مزید کم ہوکر 500 کیوبک میٹر رہ جائیگی۔ عالمی معیار کے مطابق ملک میں کم از کم 120دنوں کی پانی کاذخیرہ ہونا ضروری ہے لیکن ہم آج محض تیس دن کی ملکی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جوکسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے قطعی غیر تسلی بخش ہے۔ لہٰذا وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پارلیمنٹ کو بلاتاخیر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کرکے تمام ضروری اقدامات عمل میں لانے چاہئیں۔

تازہ ترین