• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ پاکستان میں پیر سائیوں کے کرشموں، کرامات اور اثرو رسوخ سے واقف ہوں گے بلکہ متاثر ہوں گے۔ بینظیر جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون پیر سائیوں کے پیروں میں جاکر بیٹھتی تھیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد کے قریب تنکا بابا نام کے ایک پیر سائیں ہوا کرتے تھے۔ بڑے بڑے سیاستدان ، اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران بیوپاری ، کاروباری حضرات ان کے قدموں میں پڑے رہتے تھے۔ پیر سائیں اگر کسی کو تنکا ماردیں تو یہ باور کرلیا جاتا تھا کہ اس شخص کی من کی مرادیں پوری ہوں گی۔ بینظیر کا تنکا بابا کے ہاں آنا جانا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ تنکا بابا زندہ ہیں یا کہ رحلت فرماگئے ہیں۔ بینظیر قمبر شہر کے ایک پیر سائیں کے پیروں میں جاکر بیٹھ جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ کسی نے ان کی تصویر کھینچ لی اوروائرل کردی۔ تصویر کے بڑے بڑے پوسٹر بنا کر دیواروں اور ٹرکوں پر چپکادیئے تھے۔ بیرون ملک بینظیر کو لبرل اور روشن خیال سمجھنے والے سکتے میں آگئے تھے۔ پیر سائیں شاہ محمود قریشی کی دعائیں تحریک انصاف کے لئے مخصوص ہیں۔ پیرسائیں یوسف رضا گیلانی کی دعائیں زرداری کی پیپلز پارٹی کے لئے وقف ہیں۔ پیرسائیں پگارا کی دعائیں فنکشنل مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ کرامات اور کرشمات کے علاوہ پیر سائیوں کا سیاسی اثر بھی ہوش ربا ہے۔ جس کے سر پر ہاتھ رکھ دیں وہ فاسٹ بالر سے سیاستدان بن جاتا ہے۔ حالانکہ عمران خان کو کھیل کے میدانوں سے اٹھا کر سیاست کے مکروہ میدان میں لانے والے مرحوم و مغفور جنرل حمید گل تھے۔ وہ دھوکہ کھا گئے تھے کہ ایک میدان میں جوہر دکھانے والے لوگ ہر میدان میں جوہر دکھا سکتے ہیں۔ ایک میدان میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے ہر میدان میں اپنی قابلیت کے بل بوتے پر شہرت کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔ جوکہ زمینی حقائق کے مطابق امکان سے باہر ہے۔ موجودہ دور میں فٹبال کے سپر ہیروز میسی اور رونالڈو کرکٹ کے سپر ہیروز ویرات کوہلی اور آسٹریلیا کے کپتان اسمتھ نہیں بن سکتے۔ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے اپنے اپنے دائرہ عمل کے ماہر ہوتے ہیں۔ اسی میں نام اور شہرت کماتے ہیں۔ یہیں پر جنرل حمید گل مار کھاگئے تھے۔ انہوں نے کھیل کے میدان میں عمران خان کی بین الاقوامی شہرت کو پاکستانی سیاست میں کیش کرانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ جنرل حمید گل نے اپنے قطعی غلط فیصلے سے پاکستان کو غیرمعمولی صلاحیتیں رکھنے والے Sportsman سے محروم کردیا۔ میں اگر مگر کے جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتا۔ میرا یقین ہے کہ اگر عمران خان کو اپنے لئے مناسب دائرہ عمل کی آزادی دی جاتی اور جنرل حمیدگل انہیں گھسیٹ کر سیاست کے میدان میں نہ لے آتے تو عمران خان اکیلے کھیلوں کے بل بوتے پر پاکستان کو شہرت کی بلندیوں پر لے جاتے ۔ وہ فلاحی کاموں میں سوشل ریفارمر بن کر سامنے آتے۔ مرحوم حمید گل نے ملک کا بہت بڑا نقصان کردیا ہے۔ عمران خان سیاست کرنے کے لئے پیدا نہیں ہوئےتھے۔ وہ پیدائشی اسپورٹس مین ہیں۔ اسپورٹس مین فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے پچیس تیس برس سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے باوجود سیاستدان بن نہیں پائے۔ وہ اپنی باڈی لینگویج اور بول چال میں آج بھی مکمل طور پر فاسٹ بالر دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا مرحوم جنرل حمید گل کا سماجی جرم تھا جس کے لئے پاکستان کے آئین اور پینل کوڈ میں کوئی سزا مختص نہیں ہے۔ کرکٹ کے فلسفے میں کہا جاتا ہے کہ ایک فاسٹ بالر زندگی بھر فاسٹ بالر رہتا ہے ۔ اس کا رویہ دیگر لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ عمران خان کی سیاسی پارٹی میں ایک پیر سائیں شاہ محمود قریشی ملتان والے پہلے سے موجود ہیں۔ اب ان کے ازدواج میں ایک پیرنی صاحبہ شامل ہو چکی ہیں۔ اب ان کی دعائوں اور تعویذ وں کا اثر عمران کی زندگی پر دیکھنا ہے۔ فی الحال ان کی صوبائی اسمبلی کے دو ارکان عمران خان کو چھوڑ کر زرداری سے جاملے ہیں۔ میں سینیٹ کے انتخابات کی بات کررہا ہوں۔
حوالہ تھا روہڑی کے مدفون پیر سائیوں کے کرامات اور کرشموںکا۔ روہڑی کے پیرسائیوں کے قصے آپ کو سناتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ روہڑی کے پیرسائیوں کے پاس ہر درد کی دوا ہے۔ ہر مرض کا علاج ہے۔ مگر سیاستدانوں کیلئے ان کے پاس نہ دعا ہے اور نہ دوا ہے۔ ایک پیر سائیں کا نام ہے پیر مولیٰ محب شاہ۔ وہ ماہر نفسیات ہیں۔ یعنی Psychiatric ہیں۔ نفسیاتی امراض میں مبتلا مریضوں کو ان کے مزار پر لایا جاتا ہے۔ پاگلوں کو بھی ورثا پیر محب شاہ کے مزار پر لے آتے ہیں۔ سب مریض شفایاب ہوکر گھر لوٹنے سے پہلے جو ان کے جی میںآتا ہےہدیہ کے طور پر مجاوروں کو دے جاتے ہیں۔
ایک پیر سائیں Ophthalmologistہیں۔ آنکھوں کے امراض میں مبتلا مریض ان کے مزار پر آتے ہیں۔ وہاں رہتے ہیں۔ اور ٹھیک ہوجانے کے بعد مجاوروں کو روٹی اور سالن دیتےہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زمین زرخیز ہو، فصل اچھی ہو تو پھر آپ شاہ شکر گنج کے مزار پر حاضری دیں۔ اچھی فصل حاصل کرنے کے بعد آپ مجاوروں کو دال روٹی کھلادیں۔
روہڑی اور سکھر کے درمیان دریائے سندھ کے بیچوں بیچ ایک پہاڑی ہے جس پر ایک پراسرار ٹوٹی پھوٹی رہائش گاہ ہے۔ ان کھنڈروں کو خواجہ خضر کا آستان یا آستانو کہتے ہیں۔ اگر آپ علم اور دانائی کے شیدائی ہیںاور آبی حیات اور دریائوں کے بارے میں سوجھ بوجھ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر خواجہ خضر کے آستان پر حاضری دیا کریں۔ وہاں دیا جلایا کریں۔ آپ کے لئے آگاہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ عوض میں آپ ناریل اور دودھ بطورہدیہ دے سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ روہڑی میں سوا لاکھ پیر دفن ہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین