• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اشفاق احمد نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’زاویہ ‘‘ کے آغاز میں ایک بہروپیے کا قصہ بیان کیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اورنگ زیب کے نزدیک فنونِ لطیفہ کی حیثیت لہو ولہب سے بڑھ کر نہ تھی اوروہ پازیب کی چھنکار کی نسبت تلوار کی جھنکار پر فریفتہ ہونے والا انسان تھا۔ایک شخص نے اس کے دربار میں حاضر ہو کر کہا :’’ شہنشاہ معظم ! میرا نام کندن بہروپیا ہے اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں کہ شہنشاہ معظم ،جن کو اپنے تجرِ علمی پہ بڑا ناز ہے ،دھوکہ دے سکتا ہوں ،اور غچہ دیکر بڑی کامیابی سے نکل جانے کی صلاحیت رکھتا ہوں ‘‘اورنگ زیب نے اس کا دعویٰ نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ یہ توضیع اوقات ہے ،میں تو شکار کو بھی کارِ بیکار سمجھتا ہوں ۔تم جو جو چیز میرے پاس لائے ہو اس کی ہر گز کوئی اہمیت نہیں ۔اس نے ایک بار پھر اصرار کیا ،حضور ! ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ،شہنشاہ معظم کی دانش کا جواب نہیں لیکن میں بھیس بدلوں گا اور اگر آپ مجھے نہ پہچان سکے تو پانچ سو روپے عنایت کر دیجئے گا ۔اورنگ زیب نے اس کا چیلنج قبول کرلیا ۔دربار سے واپس آکر بہروپیا سوچنے لگا کہ ایسا کونسا سوانگ رچائوں کہ بادشاہ سلامت دھوکہ کھا جائیں ۔اسے معلوم ہوا کہ آئندہ برس اورنگ زیب مرہٹوں کے خلاف یلغار کا ارادہ رکھتے ہیں ۔کندن بہروپیئے نے کسی پہنچے ہوئے بابا جی کا روپ اختیار کیا اور مرہٹوں کی سلطنت کے پاس ڈیرے ڈال دیئے ۔آتم تیاگ کی جستجو اور تپسیا کی سچی آرزو رنگ لانے لگی اور چار دانگ عالم اس بابا جی کے چرچے ہونے لگے ۔اس دوران اورنگ زیب کی فوجوں نے پیشقدمی کی تو مرہٹے قلعہ بند ہو گئے ۔کئی دن کی لگاتار کوشش کے باوجود اورنگ زیب کا لشکر اس قلعے کو فتح کرنے میں ناکام رہا تو کسی مشیر نے کہا ’’شہنشاہ معظم !یہاں پاس ہی ایک بابا جی کا ڈیرہ ہے جن کی روحانیت کا زمانہ قائل ہے اگر مناسب سمجھیں تو ان سے جا کر مدد مانگیں ۔‘‘ اورنگ زیب بھاگا بھاگا باباجی کے پاس پہنچا اور درخواست کی کہ بابا جی ! اس مشکل سے نکلنے کاکوئی راستہ تجویز کریں ۔بابا جی نے پہلے تو یہ کہتے ہوئے درخواست مسترد کر دی کہ ہم فقیروں کو دنیا داری سے کیا مطلب مگر جب اورنگ زیب نے یہ تاویل پیش کی کہ عالم اسلام پر کڑا وقت ہے اور آپ نے مدد نہ کی تو مسلمان رسوا ہو جائیں گے تو بابا جی مان گئے ،کہا پرسوں بعد نماز ظہر حملہ کرنا ،انشا اللہ غلبہ پائو گے ۔فیصلہ کن حملے کی تیاریاں ہونے لگیں ،لشکر کے حوصلے بھی یہ سن کر بڑھ گئے کہ اب تو فتح ان کا مقدر ہو چلی ہے ۔اس یقین کے ساتھ حملہ آور ہونے والے بھلا کیسے ناکام ہوتے،دیکھتے ہی دیکھتے دشمن کی فصلیں منہدم ہو گئیں اور معمولی مزاحمت کے بعد مرہٹوں نے شکست تسلیم کرلی۔کامیابی کے بعد اورنگ زیب عالمگیرنے باباجی کے آستانے کا رُخ کیا اوروہاں پہنچ کراپنا عمامہ اتار کر نہایت ادب سے ملتمس ہوا ’’باباجی ! یہ سب آپ کی بدولت ہی ممکن ہوا ‘‘ بابا جی نے اصلاح کی ،نہیں ! جو کچھ کیا اللہ نے کیا ،ہم فقیر تو بس دعا ہی کر سکتے ہیں ۔اورنگ زیب جھینپ سا گیا اور کہنے لگا ’’بابا جی !میں آپ کی خدمت میں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں ‘‘باباجی نے لاپروائی اور بے اعتنائی سے کہا ،ہمیں کسی شے کی حاجت نہیں ۔اورنگ زیب نے دو پرگنوں کی پیشکش کی جن کا رقبہ اوکاڑہ اور پتوکی کے مساوی بتایا جاتا ہے ۔بادشاہ نے بہت اصرار کیا کہ باباجی یہ تحفہ قبول کر لیں مگر باباجی نے یہ کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ دھن ،دولت اور زمین فقیروں کے کس کام کی ۔بادشاہ چارو ناچار وہاں سے چلا تو آیا لیکن اس کے دل میں باباجی کی قدر و منزلت مزید بڑھ گئی ۔
چند روز بعد اورنگ زیب اپنے دربار میں متمکن تھا کہ وہ بابا جی آن پہنچے ۔بادشاہ سلامت تختِ شاہی سے اتر ے اور دوڑتے ہوئے باباجی کے پاس جاکر کہا ،’’آپ نے یہاں تشریف لانے کی زحمت کیوں گوارہ کی ،مجھے بلایا ہوتا ،میں خود حاضر ہو جاتا ‘‘ باباجی نے ہنستے ہوئے کہا ،شہنشاہ معظم ! اب یہ ہمارا فرض تھا کہ ہم خود حاضر ہوتے ،جمع خاطر رکھئے میں کندن بہروپیا ہوں جو چند برس قبل آپ کے دربار میں حاضر ہوا تھا اور چیلنج دے کر گیا تھا ۔آپ دھوکہ کھا گئے اور مجھے پہچان نہیں پائے ۔لائیے ،پانچ سو روپے بطور انعام دیجئے ۔اورنگ زیب ہکا بکا رہ گیا اور کچھ توقف کے بعد گویا ہو ا’’مجھے پانچ سو روپے دینے پر اعتراض نہیں مگر جب میں دو پرگنے اور دو قصبے بطور تحفہ پیش کرنا چاہ رہا تھا تو تم نے لینے سے انکار کیوںکردیا ؟تم یہ زمین قبول کر لیتے اور عیش و آرام سے رہتے ؟‘‘کندن بہروپیئے نے جواب دیا ،شہنشاہ معظم ! جن بابوں کا روپ دھارا تھا ،ان کی عزت مقصود تھی ۔وہ سچے لوگ ہیں اور ہم جھوٹے ،یہ کیسے ممکن تھا کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں ۔
اسی کتاب میںآگے چل کر اشفاق احمد نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بابا کسے کہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ٹھگ یا بہروپیے کس طرح بابوں کا بھیس بدل کر دھوکہ دیتے ہیںاور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اگر اشفاق احمد اور دیگر شخصیات سے روحانیت کے زیر اثربابے کاکردارسمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا بھلا چاہنے والے بابے عہدوں اور اختیارات کے طلبگار نہیں ہوتے۔ بابے تعریف و تنقید سے بے نیاز ہوتے ہیں ،انہیں کوئی گالیاں دے یا برا بھلے کہے تو توہین محسوس نہیں کرتے اورہرگز برا نہیں مناتے ۔بابے غرور و تکبر سے کوسوں دور ہوتے ہیں اور گناہ گاروں کے ساتھ بھی بہت عاجزی و انکساری سے پیش آتے ہیں ۔بابے تو سب کی بات پوری توجہ سے سنتے ہیں ،سب کو دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔بابوںکو ناموری کا جنون یا شہرت کا لپکا نہیں ہوتا اس لیئے کسی کا بھلا کرنا ہو تو یوں خاموشی سے کرتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ۔بابے کسی کے کام میں دخل اندازی نہیں کرتے ۔بابے بغض، عناد، تعصب اور انتقام جیسے جذبوں سے ماورا ہوتے ہیں۔ بابے تجاوز پسند نہیں ہوتے ،اپنے دائرہ کار تک محدود رہتے ہیں ۔بابے وہ ہوتے ہیں جن میں تخصیص نہیں ہوتی ،جو خوشامدیوں کی باتیں سن کر ’’پاٹے خاں ‘‘ نہیں بن جاتے۔ بابے عدل و انصاف کے قائل نہیں ہوتے بس رحم و معافی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔بابے نفرت نہیں محبت بانٹتے ہیں اور حقارت آمیز انداز میں کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتے کہ میں تو اس کا نام بھی نہیں لینا چاہتا
قصہ مختصر یہ کہ بھلے وقتوں میںجب بہروپیئے کسی کا سوانگ بھرتے تواس روپ کی ننگ و ناموس بھی پیش نظر رکھتے اور کوئی ایسی حرکت نہ کرتے جس سے ان کی رسوائی و جگ ہنسائی کا اندیشہ ہوتا۔ آج کل تو بابوں کا بھیس بدل کر ناٹک کرتے بہروپیئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ وہ لوگوں کے راستے میں مشکلات کھڑی کریں گے تو ان سچے اور کھرے بابوں کی عزت پر حرف آئے گا جو شوقِ کمال اور خوفِ زوال سے بے نیاز جیا کرتے تھے ۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین