• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معروف گلوکارہ ثریا ملتانیکر کی صاحبزادی راحت ملتانیکر لاہور کےایک کالج میں پڑھاتی ہیں۔ وہ خود بھی بہت اچھی گلوکارہ ہیں۔ شادی کی تقریب میں میں نے راحت سے کہا کہ چلتے ہیں کہیں کافی پیتے ہیں چونکہ وہ میرے ساتھ سرائیکی بولتی ہیں لہٰذا انہوں نے سرائیکی ہی میں کہا ’’میں اپنی والدہ کو ان کی ایک سہیلی کے گھر چھوڑ کر آئی ہوں مجھے واپسی پر انہیں لینا ہے۔ آپ گھر آجائیں۔ باہر کیا جانا ہے۔ لاہور ویسے بھی خراب ہوچکا ہے میری والدہ مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ پرانا خوبصورت لاہور پتہ نہیں کہاں گم ہو گیا ہے نئے لاہور کی تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی۔ ‘‘یہ باتیں لاہور کے اُس کلب میں ہو رہی تھیں جس کو چھیننے کےلئے کچھ عرصہ پہلے ریلوے کے وزیر حملہ آور ہوئے تھے۔حال ہی میں اِ س وزیر موصوف نے سپریم کورٹ کے روبرو فرمایا ہے کہ میرا پیراگون سٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی بات کا انہوں نے بیان حلفی بھی جمع کرا دیا ہے۔ یہ بیان حلفی خواجہ سعد رفیق کےلئے کتنا دائرہ ثابت ہوگا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔آپ کو یاد تو ہوگا ایک بیان حلفی ابھی اسحاق ڈار کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ چھوڑئیے صاحب۔ کیا بیان ِ حلفی۔ سیاست اپنے حلف پر کہاں قائم رہتے ہیں۔ وہ تو یہ بھی حلف اٹھاتے ہیں کہ فرائض منصبی ایمان داری سر انجام دیں گے۔ جھوٹ نہیں بولیں گے اگر ان کی تقریروں کو جمع کیا جائے تو جھوٹ آسانی سے برآمد ہو جاتا ہے۔ خیر میں آپ سے راحت ملتانیکر کی بات کر رہا تھا جب راحت لاہورکے بارے میں باتیں کررہی تھیں تو مجھےچوہدری اعتزاز احسن بہت یاد آرہے تھے انہوں نے بھی کچھ عرصہ پہلے ایک تقریب میں کہا تھا کہ اُس وقت حالات بہت اچھے تھے جب لاہور شہر کی سڑکیں مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔
خواتین و حضرات ! میں نے چوہدری اعتزاز احسن کے جملہ پر بارہا سوچا کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا۔لاہور کی سڑکیں تو ضیاء الحق دور میں مسلمان کی گئی تھیں۔ پھر میں نے اس بات پر غور کیا کہ ضیاء الحق سے پہلے والا پاکستان کیسا تھا اوراس کی آمد سے پاکستان کی جو تصویر بنی ہے وہ کیسی ہے۔ ضیاء الحق سے پہلے جو پاکستان تھا اس میں سکھ اور سکون تھا، اس میں شاعری تھی، اس میں موسیقی تھی، اس میں حسن تھا، اس میں شائستگی تھی، اس میں برداشت تھی۔ اس میں اخلاقیات تھیں، اس میں رشوت کا یہ بازار بھی گرم نہیں تھا، اس میں سیاست دانوں کی بولیاں بھی نہیں لگتی تھیں۔ اس میں لوگ سیاست دانوں کو ان کی تقریروں اور ان کے نظریات سےپہچانتے تھے۔آج ہمارے سامنے ضیاء الحق کے بعد کا پاکستان ہے اس میں شائستگی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ شہروں کی بے ہنگم ٹریفک اور روزمرہ کے مسائل لوگوں سے برداشت چھن کر لے گئے ہیں۔ نہ پہلے جیسے شاعری ہے نہ موسیقی۔ تمام فنون کا حال ایسا ہی ہے۔ رہی سیاست تو اس کا حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔نظریات زیر زمین چلے گئے۔ دولت کی پوجا شروع ہو گئی۔آج کل بڑا سیاست دان وہی ہے جو بڑا دولت مند ہو یا جسے گالیوں پر زیادہ عبور حاصل ہو۔ ضیاالحق کی لگائی گئی پنیری کی فصل جوان ہوئی تو اس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا اب ہر گلی محلے میں دہشت اور وحشت کا رقص ہے۔ اگر چہ ضیاءالحق کی تیار کردہ فصل آخری سانسیں لے رہی ہے۔مگر وہ جاتے جاتے معاشرہ فسادات کے موڑ پر لے آئی ہے۔ اسے ملک کے اہم ترین اداروں سے لڑنے کا شوق ہے۔ اس لڑائی کے شوق میں اخلاقیات کی تمام حدودعبور کرنا بھی ضیاءالحق کی ٹیم کا خاصا ہے۔ ضیاءالحقی ٹیم نے پچھلے سال کچھ ترامیم ایسی کردی تھیں جولوگوں کی محبت پر حملہ تھا۔سادے اور سچے لوگ محبتوں کے چراغ کہاں بجھنے دیتے ہیں۔ دو ہزار سترہ کے اختتامی ایام میں ایک دھرنا ختم کرنے کے لئے غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا تو دھرنا پورے ملک میں پھیل گیا ایسے لگ رہا تھا جیسے نئے مارشل لا کے راستے کھل رہے ہوں۔ جنرل باجوہ کی دانشمندی کے باعث مارشل لا نہ لگ سکاکسی نے ’’فیض‘‘ تقسیم کیا اور دھرنا ختم ہو گیا مگر اس کے اثرات دلوں میں بس گئے اور پھر فیض صاحب کی دھرتی پر وزیر داخلہ کے ساتھ جو ہوا وہ ساری قوم نے دیکھا۔ تین روز پہلے اقبال کی دھرتی پر کالک ملی گئی وہ بھی ساری دنیا نے دیکھی اور پھر اُس سے اگلے دن بدلے ہوئے لاہور میں جو کچھ ہوا تو اُس کے چرچے تو ساتوں براعظموں میں ہوئے۔ یہی فسادات کا آغاز ہے۔ میں تو کافی دنوں سے لکھ رہا ہوں کہ افراتفری کا موسم آنے والا ہے بہت ہنگامے ہوں گے۔ فسادات ہوں گے۔ پانی پت کی آخری جنگ شروع ہو چکی ہے۔ مگر سن لو۔ پرانی جنگوں کے کچھ اصول ہوتے تھے۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو چھوڑ دیا جاتا تھا نئی جنگوں کی اخلاقیات اور ہیں۔ اب نہ کسی کا احترام نہ عزت، ایوب خان کے لئے صرف غیر مہذب لفظ استعمال ہوئے تھے اور وہ اقتدار سے الگ ہو گئے تھے اب غیر مہذب عمل ہورہے ہیں مگر حکمران اقتدار چھوڑنے پر تیار نہیں بس یہی فرق ہے ضیا الحق سے پہلے اور ضیاء الحق کے بعد۔ غیر مہذب اعمال کا سارا کریڈٹ ان لوگوں کو جاتا ہے جو ضیاالحق کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سنجیدہ لوگ اس مشن کو آئین اور قانون کے تحت ختم کرنا چاہتے ہیں جب کہ غیر سنجیدہ طبقہ اس مشن کا اختتام فسادات کے ذریعے چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں غیر سنجیدہ طبقے کی اکثریت ہے۔ یہ اکثریت فسادات کی شوقین ہے سو ان کا شوق پورا ہونے جا رہا ہے۔ شوق کے اس مرحلے پر مجھے مرحوم محسن نقوی کا شعر یاد آرہا کہ
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کی
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین