• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عملی سیاست اور ملکی اقتدار کے مرکز لاہور میں سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے حصول انصاف کی نیم دلانہ مشترکہ سعی کے لئے شاہراہ قائد اعظم پر عمران، قادری، زرداری کا جو’’پاور شو‘‘ شیخ رشید کی تگ ودو سے جنوری میں ہوا اس کی بری طرح ناکامی بالآخر پی ٹی آئی کو یہ سبق دے گئی کہ ’’فوجی حکومتوں کی اشیر باد سے اور اس کے بعد ان ہی کی بلواسطہ یا بلاواسطہ گھڑی ’’عوامی قوتوں‘‘ پھر ان کی بے پناہ ناجائز دولت اور سماجی پسماندگی سے تشکیل پایا اسٹیٹس کو کتنا طاقتور ہے ‘‘ یہ فقط تبدیلی کی سوچ او رعزم سے قابو آ سکتا ہے نہ عوام کی شدید مایوسی پر پی ٹی آئی کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی بتیس چونتیس نشستیں لے جانے اور ایک چھوٹے صوبے میں حکومت بننے سے یہ منہدم ہو سکتا ہے ۔
بلاشبہ دو روایتی پارٹیوں کی موجودہ پوزیشن اور فوجی آمریت کی جانب سے معاونت کے سازگار پس منظر نے ملک میں متفقہ آئین کی موجودگی اور بظاہر نفاذ کے باوجود جو مسلط نظام بد تشکیل دیا ہے اس میں قومی سطح کی تیسری بڑی پارلیمانی قوت بنانا اپنی جگہ عمران خان کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ ضرور ہے لیکن یہ جتنا مشکل اور بڑا تھا ،ممکن ہو کہ یہ اتنا ہی ادھورا ثابت ہو۔ ہدف کے لئے سرگرم تعصب اور حکومت پر مسلسل کڑی تنقید کے باوجود خان اعظم پر بار بار یہ تو ثابت ہوگیا کہ ان کی تمام تر تازہ خیالی، دیانت اور اینٹی کرپشن تحریک کے باوجود ان کا کل پوٹینشل، اسٹیٹس کو کو مسمار کرنے کے لئے کافی نہیں، جبکہ وہ تبدیلی کے بے پناہ متمنی، قانون سازی کے اہل، دیانت دار اور کئی اعتبار سے ہائی کیپسٹی حامیوں کی فوج ظفرموج بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے اس موج کے ہوتے اور بڑھتے ہوئے بھی ایسا نہیں تھا نہ ہوا کہ پارٹی منظم اور اس کی اصلی شناخت بنا کر بھی وہ یکدم نظام بد کو منہدم کر دیتے، عمران خاں اپنے تیزی سے انگیج ہونے والے مطلوب حامیوں پر مشتمل ایک اعلیٰ ٹیم اور منظم پارٹی بنانے میں بھی کامیاب ہو جاتے تو بھی ہدف بہدف اسٹیٹ کو مسمار کرنا ایک ارتقائی عمل ہی ہوتا۔ ہاں؟اسے تیز تر ضرور کیا جا سکتا تھا اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے تو آج 6-5سال کے بعد (یعنی لاہور سے اٹھی موج کے بعد) تحریک انصاف آج ایک بڑی منظم ،قومی، وفاقی اور تازہ ذہن ایک پرکشش قومی پروگرام کی حامل جماعت ضرور ہوتی جس کا پیغام نیچے کی سطح پر عوام الناس کے قلوب واذہان میں گھر کر چکا ہوتا جو کافی ہو کر ایک درجے پرریورس ہوا ہے ۔خودہی عمران خاں نمک کی کان میں داخل ہوئے پارٹی اپرحرارکی میں پارٹی کے ساتھ انگینج ہونے والی مخلص مڈل کلاس اور ہائی پوٹینشل لاٹ کو حصہ بقدر جثہ نہیں ملا۔جہانگیر ترین کو اے ٹی ایم مشین اور لاہور کے ضمنی انتخاب علیم خاں بمقابلہ ایاز صادق میں انتہائی تھرڈ کلاس سٹائل میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی جانب سے روپے پیسے کا بے دریغ استعمال اور اس سے قبل پارٹی کے اندر الیکشن اور انتخابی امیدواروں میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے مالی سکینڈلز کی زبان زدعام کہانی نے واضح کر دیا تھا کہ عمران خاں ہو ں گےسو ہوں گے ،ان کی جماعت جس پر سب سے زیادہ وہ خودہی روایتی جماعتوں کی مانند حاوی ہیں اتنی تازہ ذہن اور نئی جماعت نہیں جتنی سمجھی جا رہی ہے ۔
سمجھنے کی بات یہ تھی اور ہے کہ ’’لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے‘‘ کی آزمودہ تھیوری کو حقیقت سمجھ لیا جائے اور پریکٹس میں لایا جائے تو بھی اکیلے عمران خاں اسےاندھا دھند اور حکمت کے بغیر استعمال نہیں کر سکتے ۔کہ یہ اب ثابت شدہ ہے کہ اسٹیٹس کو ہی اگر ہدف ہے تو اس کو مطلوب انجام تک پہنچانااکیلی پی ٹی آئی کا کام بھی نہیں ۔لوہے سے لوہا کاٹنا ہی پڑے گا لیکن کب ،کہاں ، کتنا اور کیسے؟ کے جو اب صورتحال کے مطابق اگر پی ٹی آئی کو نہیں آتے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی جو اناڑیوں کی طرح نمک کی کان میں تو ایک حد تک داخل ہو کر منفی طور متاثر ہو گئی لیکن جب اسے اپنی کم مائیگی پر زیر بحث تھیوری کا حکیمانہ استعمال کرنا تھا اس میں بھی ناکام ہو گئی ۔نتیجہ آج انتخابات کے قریب تر آنے پر ن لیگ کی بینی فشری یا سادہ سماجی پسماندگی کی بھرپور حمایت کے مقابل وسطی پنجاب میں تو خاص کمزور ہے کہ اس کے پاس کوئی ٹیم ، پروگرام نہ حکیمانہ انداز یاست ۔
سانحہ ماڈل ٹائون پر قادری صاحب کی جماعت اور اس سے بڑھ کر متاثرہ پاکستانی شہریوں کو انصاف دلانے کیلئے آپ کا موقف، پی پی سے مل ہی گیا تھا تو ایک تیر سے دو ہدف حاصل کرنے کی حکمت اختیار کرنے کی ضرورت تھی ایک ’’عین قانون کے مطابق انصاف کا حصول‘‘ اور دوسرا ’’حکومتی سیاسی اپوزیشن کو شدید ضرب‘‘ لیکن اس موقع پر انتہا کا نیم دلانہ رویہ اختیار کرکے دونوں اہداف گنوا کر حکومتی مقبولیت اور سیاسی پوزیشن میں بے پناہ اضافہ کیا گیا، جس کی بڑی ذمے داری عمران خاں پر عائد ہوتی ہے جو متعلقہ فیصلہ سازی میں حاوی اور ممکنہ حد تک بے لچک ہی رہے ۔
اب جبکہ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے انتخابات میں وہ خود تو نہیں لیکن پارٹی رفقاء کے دلائل پر ڈپٹی چیئرمین کے لئے پی پی کے امیدوار کی حمایت پر تیار ہوگئے ہیںتو اس آگ اور پانی کے پوٹینشل سے وہ چائے تیار ہو ہی جائے گی جو مطلوب ہے، چائے ہماری سماجی ثقافت میں محتاط مفاہمت کی بھی علامت ہے یہ چائے اگر تیار ہوگئی تو اس سے وفاق مضبوط ہو گا سیاسی جماعتوں کا انتشار میں تبدیل ہوتا اختلاف کم ہوگا ۔لیکن یہ یوں ہوگا کہ بروقت اور درست طور مان لیا گیا کہ ’’لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے ‘‘۔
پاکستانی سیاست کی یہ نئی حقیقت اب بے نقاب ہے کہ ن لیگ جو اب واضح کئے بغیر کسی ’’نئے نظریئے‘‘ کی دعویدار ہے اور ریاستی اداروں کی چولیں ہلانے پر تلی ہوئی ہے ، پی پی کے مقابل کہیں زیادہ اسٹیٹس کو کی بڑی اور طاقتور علامت ہے ۔سو، تھیوری پر کب کتنا، کیسے اور کیوں ؟کے جواب پاتے ہوئے اسے اختیار کر لینا کوئی کفر نہیں بشرطیکہ مزید نمک کی کان میں داخل نہ ہوا جائے ۔اور اگر آگ کو پانی اڑانے میں یا پانی کو آگ بجھانے پر لگا دیا گیا ،جیسا کہ لاہور میں ماڈل ٹائون سانحہ کے لئے حصول انصاف کے لئے سہ فریقی ’’پاور شو‘‘ پر ہوا تو ایک پوٹینشل ختم اور دوسرا بے کار ہو جائے گا ۔سینیٹ چیئرمین شپ انتخابات پر پی ٹی آئی اور پی پی کے ملاپ نہیں بلکہ الگ الگ استعمال سے چائے تیار ہو گئی تو خاں صاحب پر یہ حقیقت بھی کھل جائے گی کہ
''None of us is as Smart as all of us"
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین