• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اور آخر کار ’’نئے پاکستان کو‘‘’’زر…داری‘‘ نے گود لے لیا۔
’’یوٹرن خان زرداری سرکار کے قدموں میں، یوتھیوں کو مبارک ہو۔ اب پیر زرداری سے مل کر نیا پاکستان بنے گا۔ نیازی کی لڑائی نواز سے تھی مگر ہتھیار زرداری کے سامنے ڈال دیئے… دیکھو ! تبدیلی آگئی ہے۔‘‘
کاش ! عمران بولنے سے پہلے اپنے مشیروں سے مشورہ کرلیتے یا پھر پاکستان کی سیاسی تاریخ پڑھ لیتے۔
عمران کا الزام تھا کہ بلوچستان اورفاٹا میں سینیٹ الیکشن میں زبردست منڈیاں لگیں اب وہ انمیں سے ہی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے کے حامی ہیں۔
سینیٹ الیکشن اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں عمران خان نے یوٹرن لیکر (ن) لیگ کو ہی نہیں عوام کو بھی پاگل کردیا۔ چیخیں تونکلتی ہیں، چیخو اور زور زور سے چیخو۔
’’ع‘‘ میرج بیورو کے تعاون سے اپنے تیرہ سینیٹرز بذریعہ وزیراعلیٰ بلوچستان آپ کو پیش کرتا ہوں کیاآپ کو قبول ہے؟ جی قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے۔
گویا کہ اب زرداری سے سیاسی رشتے داری کے لئے وزیراعلیٰ بلوچستان سے ’’سیاسی حلالہ ‘‘ ہوگا۔
کبھی قادری کے پیچھے ، کبھی شیخ رشید کے پیچھے، کبھی زرداری کے پیچھے، ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔
وہ( عمران خان ) 18 سال سے مسلسل جدوجہد کررہا ہے۔ وہ بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا سابق وائس چانسلر ہے۔ کیا ہم اسے مشورہ دیتے اچھے لگتے ہیں۔
واہ جی واہ! پلے نئیں دھیلہ
تے کردی میلہ میلہ
وہ اراکین اسمبلی! جب تک بکے نہ تھے تو کوئی پوچھتا نہ تھا۔’’اُس ‘‘ نے خریدا اور’’انہیں‘‘ انمول کردیا۔ ایم این اے کے ووٹ کی قیمت تین کروڑ، ایم پی اے کے ووٹ کی قیمت دو کروڑ سے شروع۔ عوام کے ووٹ کی قیمت بریانی کی ایک پلیٹ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
ذرا پوچھنا تھا زرداری صاحب سے… وہ جو ’’اینٹ سے اینٹ بجانی تھی‘‘ ان اینٹوں کا بھٹہ لگالیا ہے کیا؟
لو جی ہور سنو! نیازی صاحب نے پھر کٹ مار دیا ہے۔ اب کہتے ہیں زرداری کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
ادھر تازہ خبر!
’’ میاں صاحب نے 70 سالہ ظالم نظام کے خلاف اعلان بغاوت کردیا ہے۔ بہتر تھا اپنے اقتدار کے 35 سال مائنس کر دیتے۔‘‘
پتہ نہیں یہ کرکٹ میں اکمل برادران اور سیاست میں شریف برادران کی اجارہ داری کب ختم ہوگی؟
ہمارے سیاست دانوں کے بارے میں صرف یہ لطیفہ ہی کافی ہے۔
ٹیچر:ضرورت پڑنے پر گدھے کو باپ بنانا اس کا جملہ بنائو۔
طالب علم کا جواب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے نا!
قابل صد احترام عزت مآب بابا رحمتے آج کل عوام کے دل جیت اور دعائیں سمیٹ رہے ہیں ،امید کی کرن کچھ نظر آنے لگی ہے۔ سوشل میڈیا پر تبصرے ملاحظہ فرمائیں ۔
آخری سوال!
پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں ، یہ نظریہ کہاں دفن ہوگیا؟
موجودہ تعفن زدہ نظام معاشرت کے خلاف جو عوامی بغاوت ہو رہی ہے اس کی بھڑاس عوام سوشل میڈیا پر نکال رہے ہیں یہ وہ تبصرے اور آرا ء ہیں جو کسی کمی بیشی کے بغیر من و عن لکھ دیئے ہیں تاکہ سند رہے، ہم عام عوام سیاست دانوں ، قابل صد احترام اداروں اور ان کی قیادتوں سے کیا کیا توقعات لگائے بیٹھے ہیں، مگر ہرطرف افراتفری ہے، اختیارات چھیننے کی کھلی جنگ ہے اور اس مقصد کے لئے ہر وہ حربہ آزمایا جارہا ہے جو مروجہ اصولوں سے بہت ہٹ کر ہے۔ تباہ ہوتے نظام کی بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی، مایوسی کے بادل ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔ ملک میں اس وقت سیاست کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس کے کھلاڑی صرف سیاست دان نہیں ۔ بنیادی محور جمہوریت ہے، کوئی اسے بچا کر اپنی روٹیاں پکی کرنا چاہتا ہے تو کسی کے گلے کی یہ ہڈی بن چکی ہے۔ سیاست وہ ہاتھی ہے جس کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے کچھ اور ہوتے ہیں۔ جن ووٹروں کے سروں پر یہ کھیل کھیلا جارہا ہوتا ہے انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنے میں بک گئے۔ ان کے لئے سیاست کی جو منڈی لگائی جاتی ہے اس میں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ یہ اتنے بھولے ہیں کہ بعض اوقات کسی سڑک ، گلی یا نالی پر بک جاتے ہیں تو بعض اوقات محض بریانی کی پلیٹ پر، دوسری طرف بیو پاری عالیشان محل تعمیر کرتے ہیں، فیکٹریاں لگاتے ہیں، بیرون ملک اثاثے رکھتے ہیں اور ایگزیکٹو عہدوں پر متمکن ہو کرووٹروں کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان دنوں سیاست کا جو رنگ نظر آرہا ہے اس میں بہت سے قد کاٹھ والے سیاسی چہروں کے نقوش مشکوک نظر آرہے ہیں۔ عمران خان نے اپنے سینیٹرز کے ووٹ وزیراعلیٰ بلوچستان کی جھولی میں ڈالکر چیئرمین سینٹ منتخب کرانیکی جو سمارٹ چال چلی وہ اتنی سمارٹ تھی نہیں، سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لئے مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنے کیلئے انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی گودمیں نہیں بلکہ آصف علی زرداری کی گود میں اپنے ووٹ ڈالے اورعوام کی قسمت کافیصلہ زرداری کے ہاتھ میں دے دیا۔ عوام کو اس سے سروکار نہیں کہ چیئرمین سینٹ کون بنا، انہوں نے تو بس یہ جاننے کی کوشش کی کہ کون کتنے میں بکا، کس نے کون سی کرپشن کی اور کون پارسائی کا لبادہ اوڑھ کر غیر جمہوری قوتوں کے اشاروں پر ناچا۔ کس نے کون سے اصول توڑے اور کون کانٹوں کی راہ پر چلا۔ کس نے جذبات بیچے اور کس نے امنگیں خریدیں۔ عوام سیاسی رہنمائوں کی حرکات و سکنات اور اشاروں کنایوں کا بغور مشاہدہ کرتے رہے اور اپنے ضمیر کے ترازو میں سب کو تولتے رہے۔
سوال یہ ہے کہ جس قسم کے گدھے نما ’’گھوڑے‘‘ سینیٹ کے اصطبل میں لائے جارہے ہیں کیا وہ ہماری تقدیر بدلیں گے اور پاکستان کو دنیا کی اقوام میں سر بلند کریں گے۔ ایسے ’’خچر نما گھوڑے‘‘ جو کسی بھی قیمت پر بکنے کو تیار ہوں ان پر کیسے یقین کرلیں کہ وہ پاکستان کی سالمیت، نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرسکیں گے۔ یہ جو تباہی کا نظام چل رہا ہے زیادہ دیر چلے گا نہیں۔ کوئی تو اٹھے، کوئی تو بچائے ہمیں ان خچروںسے۔ ایک از خود نوٹس اس نظام کو تباہی سے بچانے کا بھی بنتا ہے۔ ہمیں باوقار سینیٹ اور پاکستان کی وفادار قیادت چاہئے، اصطبل نما ایوان بالا نہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین