• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مایا سرمایا: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

نجم الحسن عطا

صنعت اور ٹیکنالوجی نے عالمی تجارت میں بے تحاشا اضافہ کر دیا

صنعت اور ٹیکنالوجی کی جدید دنیا نے تجارت کے پرتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اشیائے صرف میں خام مال، مصنوعات کی تجارت اور اشیائے سرمایہ میں مشینوں کی تجارت، ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر اور ڈیجیٹل تجارت، قرضوں اور دیگر ٹیکنالوجیز کی تجارت، اشیائے ثقافت یا کوچۂ ثقافت، فن اور ادب کے علاوہ جنگوں کی تجارت، غرض کہ ضمیر کی تجارت، جھوٹ کی تجارت ان تمام صورتوں کی قوّت محرکہ ایجادیں، ٹیکنالوجی یا ذہانتی پراپرٹی کی جدّتیں تو ہیں، لیکن ہوس اور لوٹ مار بھی ہے، جس نے حقیقی اور غیر حقیقی تجارت، جوئے کے ذریعے (اسٹاک مارکٹیں اور کسینو) کرنسی کی تجارت، سٹہ بازی سے اراضی کی تجارت، لیکن پھر بھی دیکھئے یہ سب کچھ سرمایہ داری نظام میں منافع کےلیے ہوتا، مثلاً اسلحہ کی تجارت اور پراکسی جنگیں، ڈرگ کی تجارت، کمرشل ازم سے کماتا ہے۔ پاک، ناپاک سب برابر ہو گئے۔ اس نظام میں بچّوں اور خواتین کی تجارت روح کے زخم مندمل ہونے نہیں دیتے۔ قلم کی تجارت جہاں کہا جاتا ہے، لایعنی لکھا جائے۔ فلم و ادب بے معنی، نئی نسل کو روبوٹ بنایا جائے، فاسٹ فوڈ کھلایا جائے۔ ذوق اور ذائقہ تبدیل کرنے کی تجارت اور سازش، پھر جو حقیقی لین دین ہوتا ہے، وہ بھی ضروری ہے، چاہے وہ ایمان داری سے ہو نہ ہو۔ پاکستان میں بے ایمانی کے ساتھ ملاوٹ بھی تجارت ہے۔ کہتے ہیں ذہانتی پراپرٹی کی سطح درست نہ ہو تو ذرائع معاش کی ہر قسم جائز سے ناجائز اور پاک سے ناپاک کی طرف سفر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ 

سفر کی اس ناجائز سمت میں ایمانداری کم از کم اور بددیانتی زیادہ سے زیادہ شامل ہوتی چلی جاتی ہے۔ وسائل معاش کے جائز طریقوں کے ناجائز میں بدلنے کی بنیادی میکانیت ذہانتی پراپرٹی یا ذہانتی اثاثوں کا وسائل معاش سے بنیادی تعلّق یوں پیدا ہوتا ہے کہ دریافت یا ایجاد جس ملک میں پیدا ہوتی ہے ،وہاں روزگار کے بہت سے بند راستے کھول دیتی ہے۔ مثلاً ریل کا انجن ایجاد ہوا تو اس سے روزگار کے سیکڑوں شعبے وجود میں آئے۔

 انجن کےلیے درکار لوہے کی کان کنی دھات کو انجن میں بدلنے کے کارخانے، انجن میں استعمال ہونے والے سامان کے کارخانے، ریل نظام چلانے کا عملہ، نقل و حمل سے مارکیٹ کی سرگرمیاں، یعنی ایک ایجاد سے روزگار کے کئی راستے کھل جاتے ہیں اور جو ملک دریافت نہ کر سکے، ایجاد نہ کر سکے تو ایسے ملک میں بےروزگاری اور غربت اپنی جائز محنت سے محروم بےروزگار، افتادگان خاک، یہ بدنصیب ڈاکے، قتل عام، چوری اور فراڈ جیسے ذرائع کی طرف دھکیل دیئے جاتے ہیں۔

دیکھئے اور سوچیے یہ معاشی اصول ہے، جب دولت چند ہاتھوں میں مرتکز اور جمع ہو جاتی ہے تو یاد رکھیے کہ مسابقانہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ وہ جن کے پاس ٹنوں کے حساب سے کاغذی کرنسی ہوتی ہے، انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ درآمدات زیادہ ہیں یا برآمدات، کرنسی گر رہی ہے یا اس کی قدر بڑھ رہی ہے۔ ملک کے عوام بےروزگار ہیں یا برسرروزگار ہیں، ان کو اس کی پروا نہیں، ان کے اپنے کھاتے، سونا، چاندی اور عیاشی میں خلل نہ پڑے، پھر جہاں منافع ہو ، وہ ان کا گھر ہوتا ہے، اس لیے وہ ملک کو نچوڑتے ہیں۔ 

سرکاری معیشت دان 88.9ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں، چین کے 60ارب ڈالر کے قرضوں اور تجارتی خسارہ 33ارب ڈالر کے درمیان کھڑے کہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ دکھ بھری داستان یہ ہے کہ ہمارا سالانہ عالمی تجارت میں حصّہ 0.01فیصد ہے، جو نہ ہونے کے برابر ہے، اگر گلوبل تجارت میںہمارا حصّہ نصف فیصد سے کم ہو تو ملک کے اندر، ملکی مقامی تجارت اور ان کے پروڈکٹس کی فروخت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ عالمی تجارت میں نہ تو ہماری استعداد کار بہتر ہے، نہ ہی ہم اس قابل ہیں کہ دوسری اقوام کا مقابلہ کر سکیں، اسی لیے ہماری درآمدات 21ارب ڈالر ہے، جبکہ ویتنام کی 160ارب ڈالر ہے۔

 کاروباری حلقوں اور حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو درست کریں، اس کے بجائے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ گزشتہ چار سالوں میں پاکستان کی برآمدات اور روپے کی قدر گر رہی ہے اور اسحاق ڈار باہرچھپ گیا ہے۔ سچّا انسان بھاگتا نہیں، پھانسی چڑھ جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال بے مثال ہے، پاکستانیوں کےلیے انمول مثال ہے اور نہ ہی اس کی دختر مشرق ملک سے بھاگی۔

موجودہ حکومت ابھی برآمدات میں اس ہدف تک بھی نہیں پہنچی، جو 2012-13میں حاصل کیا گیا تھا (26ارب ڈالر) وہ ملک جس کے کرتا دھرتا یہ کہتے ہیں کہ ہم 2025تک دنیا کی 25ویں بڑے حجم کی معیشت بن جائیں گے۔ یہ شرم کی بات ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں برآمدات میں اضافے کی شرح صفر رہی ہے، حالانکہ پاکستان قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے۔

 کسی ملک کے پاس نہ ہی اس قدر نوجوان افرادی قوّت ہے جو معیشت کو چلائے، لیکن ان کی اکثریت ڈگریاں لے کر بھٹک رہی ہے، اسی لیے انسانی اسمگلنگ اور جرائم زوروں پر ہیں۔ چین جو اس وقت عالمی سطح پر بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے، اس کا سب سے بڑا مسئلہ نوجوان ورکرز کی کمی ہے۔ سی پیک تعمیر ہو رہا ہے۔ پاکستان کے اہل بست و کشاد نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنے نوجوانوں کو تربیت کےلیے چین بھیجیں۔ سب سے قریب گلگت، بلتستان ہے، وہاں ہی سے بھیج دیتے۔

 ادھر مکران کے ساحل کے قرب و جوار میں غربت پھیلی ہوئی ہے، یہاں سے افرادی قوّت بھیجتے۔ سرائیکی علاقہ، اندرون سندھ، کراچی کے مضافات ، پنجاب کے پسماندہ علاقے اور کے پی کے سے لاکھوں لوگوں کو کم از کم تربیت کے سلسلے کو سی پیک کا حصّہ بناتے تب بھرپور فائدہ ہوتا۔ ملائشیا میں محنت کشوں کی کمی ہو گئی۔ وہ اپنی انڈسٹریز کو چلانے کےلیے بیرون ملک سے لوگوں کو منگوا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی مثال پیش ہے، جہاں لاکھوں پاکستانی محنت کش کام کر کے 18؍ارب ڈالر سالانہ ترسیلات زر بھیج کر پاکستان کے دو نمبری ٹیکس چوروں کے منہ پر تمانچہ رسید کر رہے ہیں۔

پاکستان میں دو شعبوں پر زور دیا گیا ہے، ایک سیمنٹ فیکٹریاں بنائی گئیں، دوسرا شوگر ملوں کی بہتات ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فاضل پیداوار کو برآمد کر کے سرمایہ دار زرمبادلہ کماتے ہیں اور زیادہ تر زرمبادلہ باہر ہی رہتا ہے۔ ملک میں دونوں اشیاء مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں اور شوگر مل مالکان کسانوں سے گنّا درست قیمت اور درست وقت پر نہیں خریدتے۔ 

یہ بھی دیکھئے کہ ان دونوں شعبوں میں پرانے سرمایہ دار ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں، کسی نئے سرمایہ دار کو آنے نہیں دیتے۔ سیمنٹ انڈسٹری 1997 میں تقریباً ایک کروڑ ٹن سیمنٹ پیدا کرتی تھی، دو ڈھائی عشروں کے بعد اس پیداوار میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔ اس وقت 46.70ملین ٹن سیمنٹ پیدا کیا جا رہا ہے، لیکن فیکٹریاں اتنی ہی ہیں، یعنی صرف 23 فیکٹریاں کام کر رہی ہیں اور ان دونوں شعبوں کے مالکان نوٹوں کی بوریاں بھر رہے ہیں۔

 اتنے زبردست منافع کے باوجود کسی نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ کوئی نیا سرمایہ کار ان دو شعبوں میں نہیں آیا، چوں کہ پاکستان کے طاقتوروں کی اجارہ داری ہے۔ یہ سرمایہ دار پورا الیکشن خرید سکتے ہیں، اگر وطن پرست ہوں تو یہ قرضے ختم کر سکتے ہیں، لیکن ان کی دولت تو باہر بہت زیادہ ہے، جس سے بیرون ملک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان میں ان دو شعبوں میں کارٹل بنے ہوئے ہیں اور اپنی مرضی سے قیمت فروخت اور قیمت خرید (گنا وغیرہ) مقرر کرتے ہیں۔ 

یہ اشرافیہ کی معیشت ہے، اس لیے کوئی نیا چہرہ اس میں آنے کی کوشش ہی نہیں کرتا تو پھر ملک کہاں کھڑا ہو گا اور کون چلائے گا؟ اس ملک میں ایک زمانے میں 22خاندانوں کا راج تھا تو وزیر خزانہ محبوب الحق ان کے خلاف چیخ اٹھا اور اب 500سے زائد بڑے بینکوں، ٹیکسٹائل ملوں، پاور پلانٹس، گارمنٹس کارخانے، سیمنٹ، شوگر ملیں، ایوی ایشن سروس وغیرہ پر قابض ہیں۔ ملک پسماندہ ہے اور ان ملوں کے مالکان دنیا کے مالداروں میں شامل ہو رہے ہیں، اسی لیے ہماری برآمدات گھٹ رہی اور درآمدات بڑھ رہی ہیں، کیونکہ باہر سے ٹیکنالوجی امپورٹ نہیں ہو رہی ہے۔ 

تعیش اشیاء کے ساتھ چند ممالک چلانے کےلیے اشیاء جن میں تیل سرفہرست ہے، منگوایا جا رہا ہے، دولت چند سو خاندانوں میں مرتکز ہو گئی ہے۔ دو نمبری اور ٹیکس چور 35لاکھ افراد کے قریب ہیں، اس لیے نئی نئی بڑی بڑی گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آتی ہیں اور روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے، اس کی کسی کو پروا نہیں۔ وزارت تجارت نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا، کیونکہ دیگر وزارتیں مداخلت کرتی ہیں۔ 

ایف بی آر ڈیوٹیز یا ٹیکس پاکستان کی ضرورت کے مطابق نافذ نہیں کرتا، بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ بجٹ کا خسارہ کیسے پورا ہو، اسی لیے بجلی مہنگی اور برآمد کنندگان مقابلے کے قابل نہیں رہے اور پانی کی بھی قلّت ہے۔ موجودہ حکومت یا اپوزیشن کے کسی لیڈر نے ان مسائل کا ذکر اپنی تقریروں یا بات چیت میں نہیں کیا۔

 کوئی نہیں ہے، جو آزاد تجارتی پالیسی بنا سکے، بجلی کے نرخ کم کر سکے، جس ملک میں لائن لاسز میں 32فیصد نقصان اٹھایا جا رہا ہو، وہاں پاکستان کو طویل مدّت کا حل چاہیے، تاکہ بیمار معیشت کو چلنے کے قابل کیا جائے۔ ہماری برآمداتی بنیاد بہت کم ہے، صرف 10پروڈکٹ 80فیصد درآمدات کھا جاتے ہیں اور ایکسپورٹ کا انحصار 80فیصد ٹیکسٹائل پر ہے، اس کے بعد چاول، چمڑا آتا ہے۔پاکستان 70فیصد برآمدات امریکا، یواے ای اور مشرق وسطیٰ میں کرتا ہے۔ 

مارکیٹوں کی تلاش نہیں کی جاتی، ہم نے افریقی ریاستوں، وسطی ایشیائی ریاستوں، روس اور مشرق بعید کو بالکل نظرانداز کر رکھا ہے۔ ملک کو ترقی دینے کےلیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ وفاقی حکومت کے خلاف آپٹما نے بہت احتجاج کیا ہے، لیکن غیر سنجیدگی دیکھتے ہوئے وہ صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹیکسٹائل شعبے کو کسی طرح انرجی بحران سے نکالیں اور فی یونٹ اس کی قیمت کم کریں۔ 

جتنے بھی ری فنڈ اور ری بیٹ ہیں، ان کی واپسی کا انتظام کریں۔ اندازہ کیجئے یورپ نے جی ایس پی سہولت واپس نہیں کی، اس کی تجدید کر دی ہے، لیکن پاکستان اس سے پہلے کوئی فائدہ اٹھا سکا اور نہ اب اٹھا سکے گا، کیونکہ پاکستان کے عوام اور معیشت سے کسی حکمران کو دلچسپی ہی نہیں ہے۔ ادھر خبر یہ ہے کہ پچھلے دو ماہ سے مینوفیکچرنگ کا شعبہ سکڑ گیا ہے، اس کی گروتھ 1.4فیصد منفی میں جا رہی ہے۔ 

موجودہ مالیاتی سال میں احسن اقبال جیسے دانشور آس لگائے بیٹھے ہیں کہ 5.5فیصد شرح نمو ہو گی۔ اگر یہ حالت بدستور جاری رہی تو آئندہ جو حکومت کرے گا، اس کےلیے یہ ملک عذاب جان تو بنے گا ہی، لیکن عوام کی حالت مزید خستہ ہو جائے گی۔ کے پی کے اور سندھ میں گنّے کی پیداوار 37.4فیصد اس سال کم ہوئی ہے۔ 

پاکستان بیورو شماریات کے مطابق، فوڈ، پیٹرولیم پروڈکٹس، کیمیکلز، انجینئرنگ پروڈکٹس، لکڑی سے بننے والے پروڈکٹس، کھاد، چمڑابھی ان دو ماہ میں پیداواریت کے تناظر میں کمی کا شکار رہا، اگر فارماسیوٹیکلز دیکھیں تو کیپسول، انجیکشن، گولیاں وغیرہ بالترتیب 79.2فیصد116.6 اور 57.7فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ گھی اور سبزیوں میں 32فیصد کمی آئی اور سیاستدان اور بیوروکریٹ کہتے ہیں کہ ہمیں کرپٹ کیوں کہا جا رہا ہے، پھر خود ہی بتائیںپاکستان کہاں کھڑا ہے؟

تازہ ترین
تازہ ترین