• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جو حرمتِ رسول کے نام کی خاطر اپنے اپنے گھروں سے نکلے مگر لوٹ مار، قتل و غارت اور جلاؤ گھیراؤ میں شامل ہو کر اپنے خلاف ہی گواہی لکھوا دی۔ یہ تو موقع تھا کہ اللہ کے رسول کی محبت کے لئے گواہی لکھوانے کا تاکہ میدانِ حشر میں ہماری شرمندگی کم ہو سکتی مگر اُن بدقسمتوں نے اپنے ہی بھائیوں (بشمول پولیس اہلکاروں) کو قتل کیا ان کا مال لوٹا، چور اچکّوں اور ڈاکوؤں کی طرح اپنے ہی ملک کے بنکوں کا پیسہ لے اڑے اور ان کو آگ بھی لگا دی، راہ چلتے امّتِ رسول کے پیروکاروں پر ڈنڈے برسائے، ان کی گاڑیوں کو بھی توڑ ڈالا، پٹرول پمپوں کو بھی آگ لگا دی اور جہاں سے جو ملا اٹھا کر لے گئے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بیچارے تو پہلے ہی دکھی تھے، ان کے دل چھلنی تھے کہ کس طرح اسلام دشمنوں نے پیارے محمد کی شان میں گستاخی کی۔ ہمارے دل تو امریکا و یورپ کی خباثت پر خون کے آنسو رو رہے تھے مگر ہمارے درمیان موجود کالی بھیڑوں نے ہمیں اور غم زدہ کر دیا۔ نبی سے محبت کا یہ کون سا طریقہ تھا کہ اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں کا خون کر دیا۔ ہمارے نبی نے تو ایک کلمہ گو کی جان و مال کی حرمت کو کعبہ کی حرمت پر بھی فوقیت دی مگر نبی کی حرمت کے لئے منائے جانے والے دن دو درجن سے زیادہ معصوم جانوں کو قتل کر دیا گیا جن کے دل بھی عشق رسول سے لبریز تھے۔ ہمارا دین تو دوسروں کی جان مال کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے مگر ہم نے اس دن لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کا بازار گرم رکھا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد تو اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں اور آپ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی سے زیادتی کرے گا تو یوم حشر کو آپ خود اس کا بدلہ لیں گے۔ مگر ہم میں ایسے فتنہ باز بھی موجود ہیں جنہوں نے ایک گرجا گھر کو بھی آگ لگا دی۔
اپنے نبی کی محبت میں نکلنے والے لاکھوں افراد جو پرامن رہے اور جنہوں نے کسی غیر شرعی اور غیر قانونی کام میں حصہ نہ لیا، ان بیچاروں کو بھی چند شرپسند اور بے راہ رو افراد کی وجہ سے مزید دکھ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں میں میڈیا کے کردار پر بھی بات کرنا چاہوں گا جس نے ایسی تصویر کشی کی کہ جیسے پورا پاکستان جل رہا ہو۔ چند شہروں میں اور وہ بھی کچھ مخصوص مقامات پر حالات خراب ہوئے مگر میڈیا نے پاکستان کے طول و عرض میں ان سیکڑوں احتجاجی مظاہروں پر بہت ہی کم توجہ دی جو مکمل طور پر پرامن رہے۔ سارا زور پرتشدّد واقعات کو بار بار دکھانے پر رہا۔ تشدد کرنے والے سیکڑوں میں ہوں گے جبکہ پرامن مظاہرین لاکھوں میں تھے مگر نجی ٹی وی چینلز کے کیمرے انتشار کو ہی دکھاتے رہے بلکہ بار بار اس طرح دکھایا کہ ایسا لگا کہ ہر احتجاج کرنے والا توڑ پھوڑ اور خون خرابے میں مصروف ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپنے آپ کو عوام کے نمائندہ کہنے والے، کراچی، سندھ، پنجاب، پختون خواہ، بلوچستان کے بڑے بڑے سیاسی رہنما، اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے کے دعویدار سب کے سب غائب تھے۔ صدر زرداری ملک سے غائب، وزیراعظم پرویز اشرف نے بند کمرہ میں تقریر کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ کر لیا۔ میاں نواز شریف، اسفندیار ولی، چوہدری شجاعت حسین، صوبائی گورنرز اور وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراء، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی سب کے سب غائب۔ الطاف حسین نے حاضری لگانے کاکام کیا جبکہ عمران خان کا کردار نسبتاً بہتر رہا اور وہ مظاہرین کے درمیان موجود پائے گئے۔ حکومت نے یوم عشق محمد منانے کا اعلان کیا اور تقریباً ہر سیاسی پارٹی نے احتجاج کی حمایت کی اور کال دی مگر لوگوں کو گھروں سے نکال کر سب لیڈر گھروں میں سوئے رہے۔ حرمت رسول سے بڑا ایشو کیا ہو سکتا ہے مگر شاید ہمارے بڑے بڑے لیڈران اور ان کی جماعتیں امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔ جب لیڈر گھروں میں دبک کر بیٹھ جائیں گے اور لوگ سڑکوں پر ہوں گے تو پھر توڑ پھوڑ، گھیراؤ جلاؤ اور مار دھاڑ کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ اپنی اپنی سیاسی مصلحتوں اور اپنے اپنے زندہ اور مرے ہوئے لیڈروں کے لیے تو ہمارے سیاسی رہنما اور ان کی جماعتیں لاکھوں کی ریلیاں کامیابی سے نکالتی ہیں اور لانگ مارچ بھی کئے جاتے ہیں مگر یہ کیسی سیاست ہے کہ نبی کی حرمت کے لئے صدر زرداری نے کوئی جلسہ کیا نہ وزیراعظم پرویز اشرف نے۔ اس مسئلہ پرنواز شریف کو بھی لانگ مارچ کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ الطاف حسین، صدر زرداری کے لیے تو کراچی میں ایک بہت بڑی پرامن ریلی نکال سکتے ہیں اور اسفندیار ولی آئے دن پشاور میں باچا خان کے لیے جلسے منعقد کرتے رہتے ہیں مگر نبی کی حرمت کے حق میں باہر نکلنے کا وقت آیا تو کراچی اور پشاور کو غنڈوں اور لٹیروں کے حوالے کر دیا۔ اپنے نبی کی حرمت کے لئے لڑنا تو ان کا فرض ہے مگر ہمارے سیاستدانوں نے سمجھ لیا جیسے یہ صرف مذہبی جماعتوں،مولویوں اور مدرسے کے طالب علموں کی ذمہ داری ہے۔ میری دانست میں گزشتہ جمعہ کے روز کی بربادی کی تمام تر ذمہ داری قومی و صوبائی حکمرانوں اور اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے کی دعویدار بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے سر ہے۔
اس تمام تر مایوس کن صورتحال میں مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ اپنے نبی کی محبت میں بلوچستان کے تقریباً ہر ضلع حتّٰی کہ ڈیرہ بگٹی میں بھی احتجاج ہوا جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کو صرف اور صرف اسلام کے نام پر ہی متحد رکھا جا سکتا ہے۔ مگر اُس سب کے باوجود جو ہمیں دکھایا گیا، اگر کوئی یہ چاہے کہ مسلمان اصل مسئلہ (حرمت رسول پر تازہ امریکی حملہ) کو بھول کر پاکستان میں ہونے والے پرتشدّد واقعات پر توجہ دیں تو یہ اللہ کے رسول کے ساتھ بے وفائی سے کم نہ ہو گا۔ ہم مسلمانوں کو اپنا پرامن احتجاج جاری رکھنا ہے تا وقتیکہ اسلامی دنیا کے بے حس اور بے شرم حکمرانوں کو اُن کی ذمہ داری کا احساس دلایا جا سکے تا کہ وہ بے غیرتی کی زندگی کو ترک کریں اور سب مل کر دنیا کو یہ باور کرائیں کہ امریکا و مغرب کی دین اسلام اور پیغمبران اسلام سے متعلق خباثتوں کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
تازہ ترین