• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ن لیگ کو سینیٹ انتخابات میں شکست کیسے ہوئی؟

کراچی( تجزیہ: مظہر عباس) مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی اکثریت رکھنے کے باوجود چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کیسے ہارگئے؟ بیلٹ باکس کھولنے پر ووٹوں کی تعداد تبدیل کیوں تھی؟ یہ سوالات شریفوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ کسی حد تک اس سے آئندہ عام انتخابات کے لیے ترتیب دی گئی سیاسی شطرنج بھی سمجھ میں آسکتی ہے، خاص طور پر اگر آئندہ انتخابات کے نتیجے میں معلق پارلیمنٹ بنی۔ سینیٹ الیکشن کا نتیجہ نواز شریف اور ان کی جماعت کے لیے یقیناََ ایک دھچکا تھا کیونکہ وہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرکے کچھ ترمیمیں کرنا چاہتے تھے۔ ن لیگ گزشتہ دو ماہ میں پروان چڑھنے والی صورتحال کا درست ادراک کرنے میں ناکام رہی ہے، خاص طور پر بلوچستان اورکراچی کی سیاست میں جو تبدیلیاں وقع پذیر ہوئیں اور پنجاب میں سینیٹ الیکشن کے دوران جو کچھ ہوا۔ لازم نہیں کہ ن لیگ کی شکست پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی کامیابی سمجھی جائے، تاہم معلق پارلیمان کی صورت میں مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے لیے ایک اشارہ ضرور مل سکتا ہے،ہو سکتا ہے عام انتخابات میں پی پی اور پی ٹی آئی اتحاد نہ کریں ، ایسا کرنے کے لیے عمران خان کو اپنی حکمت عملی پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا، سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاست اصولوں کی بجائے ممکنات کا کھیل ہےاور اب تک وہ اپنے طرز سیاست میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ بلوچستان کا نام استعمال کرنا قابل افسوس ہے، یہ بات ٹھیک ہے کہ پہلی بار پسماندہ صوبے سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوا ہےلیکن ان کی کوئی پارٹی نہیں ، وہ آزاد گروپ سےہیں ، یقیناََ اس سے بہتر اور اچھا راستہ اپنایاجا سکتا تھا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے لیے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر نقادوں کے منہ بند کرنا یقیناََ ایک چیلنج ہے، ان کی کارکردگی مانیٹر کی جائے گی، یہی مسئلہ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کو درپیش ہو گا، اس گروپ کو آئندہ عام انتخابات سے پہلے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے پی پی یا پی ٹی آئی میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنا ہو گا۔ ن لیگ کی اعلیٰ کمان کو سینیٹ میں شکست کے اسباب کا پوسٹمارٹم کرنا ہو گا، دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتی ہے یا نہیں۔ جبکہ اس الیکشن کے ممکنہ نتائج کو دیکھتے ہوئے ہو سکتا ہے انہیں جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں زیادہ سنجیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔ ن لیگ سینیٹ چیئرمین کی نشست 12 مارچ کو نہیںہاری بلکہ یہ سب بلوچستان میں پارٹی کے اندر بغاوت سے شروع ہوچکا تھاجسےلیگی قیادت روک نہ سکی، بغاوت صرف سابق وزیر اعلیٰ زہری کے خلاف ہی نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد کچھ اور تھا جو ہم نے سینیٹ الیکشن میں دیکھا۔ سندھ میں بھی سینیٹ الیکشن کے دوران اسی پر عمل کیا گیا، کس طرح ایم کیو ایم پاکستان منصوبے کا حصہ دکھائی دی ، اور 2018 کے انتخابات میں کیا ہوگا؟ یہاں ایم کیو پا کستان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو بلوچستان میں ن لیگ کیساتھ ہوا۔ جس پارٹی نےصوبائی اسمبلی میں 2013میں 50ارکان بھیجے وہ 2018 میں صرف ایک سینیٹر بنواسکی، ن لیگ کراچی کی صورتحال کا اداراک کرنے میں ناکام رہی ، ن لیگ نے نے ایم کیو ایم میںہونے والی ’انجنئیرنگ‘ کا بھی ادراک نہ کیا اور بالآخر وہی اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے 7 ایم پی اے پاک سر زمین میں جانے کے بعد اس کے ارکان کی تعداد کم ہو کر 38 رہ گئی، لیکن یہ عمل یہی نہیں رکا بلکہ ایم کیو ایم مزید دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ سندھ میں اپوزیشن کے 63 ارکان تھے اور سینیٹ میں چار نشستیں حاصل کی جاسکتی تھیں، تاہم ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کا فارمولا غالب رہا اور فنکشنل لیگ کے مظفر حسین شاہ اور ایم کیو ایم کے فروغ نسیم کی صورت میں محض دو سینیٹر بنے۔ پنجاب میں صورتحال سب سے دلچسپ رہی ، یہاں ن لیگ کے کلین سویپ کا چانس تھا تاہم پی ٹی آئی کے چودھری سرور جیت گئے۔ یہ ن لیگی ارکان کی غداری کے بغیر ممکن نہ تھا اور یہی وطیرہ پیر کو ہونے والے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں دوہرایا گیا، یہ ایم پی اے اور ایم این اے کون تھے ؟ انہیں منظر عام پر لایا جانا چاہیے۔ ایک عرصے سے اقتدار کا کھیل کھیلنے والے جانتے تھے کہ 34 سیٹوں کے ساتھ ن لیگ کا تنہا اکثریتی جماعت بن جانا اچھا نہیں ہو گا، حتیٰ کہ سینیٹ چیئرمین کے لیے پولنگ سے پہلے تک حکمران اتحاد کے پاس اپوزیشن کے 50 سینیٹرز کے مقابلے میں 52 سنیٹرز کی اکثریت تھی، لیکن جب بیلٹ باکس کھلے تو حکمران اتحاد بڑے مارجن سے ہار چکا تھا۔ جمہوریت اور ن لیگ ایک نقاد نے اسے جمہوریت کا حسن قرار دیا۔ جمہوریت میں خاص طور پر جب اداروں کے ساتھ چپقلش ہو تو اپنے کارڈز پوشیدہ رکھے جاتے ہیں اور مقبولیت کو بھی عیاں نہیں کیا جاتا۔ 1989 میں پہلی بار بے نظیر بھٹوکے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ آیا تو آصف زرداری نے یہ آرٹ تب ہی سیکھ لیا تھا۔یہ پہلا موقع تھا جب بے نظیر بھٹونے بھی محسوس کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بطور وزیراعظم قبول نہیں کیا۔ پہلے نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد بنا کر پی پی کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کا منصوبہ بنایا گیا پھر عدم اعتماد کے ووٹ کا طریقہ اپنایا گیا اور اس کے لئے بھاری رقوم استعمال ہوئیں۔ 2007ء میں بے نظیر نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے 58ٹو بی سے جان چھوڑانے کے ساتھ صدارت کو بھی محفوظ کرنے کے لئے ذہن بنا لیا تھا، ان کے قتل کے بعد یہ کام آصف زرداری نے کیا یقیناً زرداری کا یہ جراتمندانہ فیصلہ تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھےکہ مضبوط اور آزاد عدلیہ مسائل پیدا کر سکتی ہے، اس لئے انہوں نے نواز شریف کے ساتھ ججوں کی بحالی کے معاہدے کے باوجود ایک سال تک معاملہ لٹکائے رکھا۔ 2015ء میں نواز شریف کو زرداری نے متنبہ کیا کہ اگر انہوں نے سندھ حکومت اور پی پی کے خلاف نیب کے ذریعے کارروائی کی تو ایک وقت آنے پر وہ بھی ان کارروائیوں کا نشانہ بن سکتےہیں۔ نواز شریف نے جب ان کارروائیوں کو نہ روکا اور آصف زرداری ڈاکٹر عاصم اور انور مجید کی گرفتاری کی صورت میں ان کا نشانہ بنے تو انہوں نے نواز شریف سے راہیں جدا کرلیں،اگرچہ اب زرداری نے مستقبل میں مزید اچھے نتائج کے حصول کے لیے اپنی جماعت کے سب سے اہم سینیٹر رضا ربانی کو سائیڈ لائن کردیا ہے ۔ نواز شریف کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زرداری کا بیانیہ قطع نظر اس بات کے کہ وہ کتنا مقبول ہے اسے کامیاب نہ ہونے دیا جائے، کچھ اس طرح کا راستہ نکالا جائے جو شہباز شریف اور چودھری نثار چاہتے ہیں۔ نواز شریف کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ صرف مقبولیت اور اکثریت ہی کامیاب کروا سکتی ہے، بھٹو جیسا مقبول لیڈر کوئی بھی نہیں تھا ،وہ 1977ء میں حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد مزید مقبول ہوگئے، لیکن دو چیزیں جو کہ 1977ء کے انتخابات ملتوی کروانے اور خود بھٹو کے زوال کا سبب بنیں ،ان میں سے پہلی اپنی مقبولیت کو قبل ازوقت عیاں کرنا اور دوسری سرعام فوجی جنرلوں پر تنقید کرنا تھا۔ حتیٰ کہ الیکشن میں کامیابی بھی تعلقات کو معمول کے مطابق چلانے کی یقین دہانی نہیں۔ کم از کم میں نے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ سے یہی سیکھا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین