• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہ ناممکنات کو ممکنات اور ممکنات کو ناممکنات میں بدلنے کا کھیل ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک پیشگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات سرے سے نہیں ہوں گے کیونکہ موجودہ حکومت کا مارچ2018 سے پہلے بستر بوریا گول ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا پھر کہا گیا کہ الیکشن تو ہو جائیں گے لیکن مسلم لیگ ن کو سینیٹ پر کنٹرول حاصل نہیں کرنے دیا جائے گا۔ پیر کو سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں ایسا ہی ہوا۔ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نے مل کر ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ آزاد رکن صادق سنجرانی جہاں بلوچستان سے سینیٹ کے پہلے چیئرمین منتخب ہو گئے وہاں پیپلزپارٹی نے حیرت انگیز طور پر اپنے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین منتخب کرا لیا۔ اکثریتی پارٹی مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ اپنے حریفوں سے گیارہ اور دس ووٹوں کی کمی سے ہار گئے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے اور وفاداریاں تبدیل کرا کے آزاد گروپ کو برسر اقتدار لانے کی منصوبہ بندی نیز خیبر پختونخوا میں ارکان اسمبلی کے ووٹوں کی مبینہ خرید و فروخت سینیٹ پر مسلم لیگ ن کی بالادستی روکنے کے پروگرام کا ہی حصہ تھی۔ آخری مرحلے میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد نے جسے تجزیہ کار غیر فطری قرار دے رہے ہیں جوڑ توڑ کے ذریعے کام کر دکھایا اور مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی یقینی جیت کو شکست میں تبدیل کر دیا۔ صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین کے طور پر اگرچہ بلوچستان کا کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکیں گے لیکن ان کے انتخاب سے احساس محرومی کے شکار صوبے کے عوام کی تالیف قلب میں ضرور مدد ملے گی۔ میر ظفر اللہ جمالی بلوچستان سے ملک کے پہلے وزیراعظم تھے صادق سنجرانی پہلے چیئرمین سینیٹ ہوں گے بلاول بھٹو زرداری، عمران خان اور اپوزیشن کے کئی دوسرے رہنمائوں نے ان کے انتخاب کو وفاق اور جمہوریت کے لئے تقویت کا باعث قرار دیا ہے۔ ان کا انتخاب اس لئے بھی خوش آئند ہے کہ وفاق میں ایک بڑے پارلیمانی عہدے پر ایک چھوٹے صوبے کو نمائندگی دینے سے قومی یک جہتی کا بھرپور تاثر ابھرے گا لیکن جن حالات اور جس پس منظر میں یہ انتخاب ممکن ہوا اس پر نہ صرف اکثریتی پارٹی اور اس کے اتحادیوں بلکہ تجزیہ نگاروں اور رائے عامہ کے نمائندوں نے بھی شکوک و شبہات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے بلوچستان کے سینئر سیاستدان میر حاصل بزنجو نے الزام لگایا کہ بالادست قوتوں نے بلوچستان اسمبلی اور کے پی اسمبلی کو منڈی بنا دیا اور ثابت کردیا کہ وہ پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ جمہوریت کو شکست اور زر اور زور کی جیت ہوئی۔ تجزیہ نگاروں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ پہلے سینیٹ کے ارکان اور اب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں اربوں روپے کی ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ یہ جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں۔ اس سے غیر جمہوری قوتوں کو من مانی کی شہ ملے گی اور غیر اخلاقی غیر فطری سیاسی اتحادوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ تین سال پہلے مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کے رضا ربانی کو چیئرمین بنا کر جس مفاہمتی عمل کا آغازکیا تھا اسے شدید دھچکا پہنچا ہے۔ سینیٹ کو جو ملک کا سب سے بڑا پارلیمانی ادارہ ہے گرہ بندیوں اور منفی سیاست سے بالاتر ہونا چاہیئے۔ صادق سنجرانی حادثاتی طور پر سامنے آئے ان کے پاس کوئی پارلیمانی تجربہ نہیں اور تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، یہ وقت ہی ثابت کرے گاکہ اس عہدے کے لئے جس معاملہ فہمی،ژرف نگاہی اور آئینی و قانونی مہارت کی ضرورت ہے وہ اس پر کہاں تک پورا اترتے ہیں اور سینیٹ میں متوقع سیاسی ٹکرائو سے پیدا ہونے والی صورت حال پر کیسے قابو پاتے ہیں۔ امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنے پیشرو چیئرمینوں کی طرح کامیاب ثابت ہوں گے۔

تازہ ترین