• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر پاکستان، ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1956ء تک برطانوی بادشاہ پاکستان کا سربراہ تصور کیا جاتا تھا اور پاکستان میں گورنر جنرل، برطانوی بادشاہ کا نمائندہ ہوتا تھا۔ اس طرح پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ ملک کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے تاہم 1956ء کے آئین میں جب ’’صدر پاکستان‘‘ کا عہدہ تخلیق کیا گیا تو اسکندر مرزا ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور اب تک اس عہدے پر 12 صدور فائز ہوچکے ہیں۔ موجودہ صدر ممنون حسین جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا، نے 9 ستمبر 2013ء کو پاکستان کے بارہویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
مختلف ادوار حکومت میں آئین میں ترامیم کے تحت صدر کے اختیارات میں واضح کمی اور اسمبلی توڑنے کے اختیارات 58-2/B کے خاتمے کے بعد یہ تاثر عام ہے کہ تمام تر پروٹوکول کے باوجود صدر مملکت کا عہدہ محض رسمی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اُن کے مقرر کئے گئے صدر فضل الٰہی چوہدری کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ’’ایک روز اسلام آباد پولیس نے کسی شخص کو رات گئے دیواروں پر وال چاکنگ کرتے ہوئے گرفتار کرلیا جو دیواروں پر تحریر کررہا تھا کہ ’’صدر فضل الٰہی چوہدری کو رہا کرو۔‘‘ گرفتار شخص کوئی اور نہیں بلکہ خود فضل الٰہی چوہدری تھے جو ایوان صدر میں خود کو قیدی محسوس کرتے تھے اور وال چاکنگ کرکے اپنی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے تاہم موجودہ صدر کے بارے میں اس طرح کا تاثر قطعی درست نہیں کیونکہ ممنون حسین ایک سرگرم صدر تصور کئے جاتے ہیں جو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، وہ صدر ہونے کی حیثیت سے 17 وفاقی یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں اور اِن یونیورسٹیوں کا شاید ہی کوئی ایسا کانووکیشن ہو جس میں انہوں نے شرکت نہ کی ہو، اس طرح ممنون حسین کا شمار سب سے زیادہ کانووکیشن گائون پہننے والے صدور میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صدر ممنون حسین اِن وفاقی یونیورسٹیوں کی سنڈیکٹ میٹنگز میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں جبکہ وہ انڈس اسپتال سمیت کئی فلاحی اداروں سے بھی منسلک ہیں۔
78 سالہ ممنون حسین کا تعلق کراچی سے ہے جنہوں نے ابتدائی تعلیم کسی اسکول میں نہیں بلکہ گھر پر حاصل کی اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سے بی کام کیا۔ بعد ازاں انہوں نے کراچی کے معروف تعلیمی ادارے آئی بی اے سے اُس وقت ایم بی اے کیا جب پاکستان میں چند لوگ ہی اِس ڈگری کے حامل تھے۔ ممنون حسین نے 1991ء میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی، وہ ٹریڈ پالیٹکس میں بھی بڑے سرگرم رہے ہیں اور کراچی چیمبرز آف کامرس کے صدر رہ چکے ہیں۔ صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل ممنون حسین گورنر سندھ مقرر ہوئے۔ اُن کے گورنر بننے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے جس کا خود بھی اُنہیں قطعاً علم نہیں تھا۔ ایک روز وزیراعظم میاں نواز شریف نے ممنون حسین کو ملاقات کیلئے اسلام آباد بلایا، وہ جب وہاں پہنچے تو گورنر کا نوٹیفکیشن میاں نواز شریف کے سامنے رکھا تھا۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے اُن سے کہا کہ ’’اگر آپ کو منظور ہو تو نوٹیفکیشن پر دستخط کردوں۔‘‘ اس طرح ممنون حسین گورنر سندھ مقرر ہوئے لیکن کچھ ہی ماہ بعد جنرل پرویز مشرف، نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوگئے۔ جنرل پرویز مشرف کی خواہش تھی کہ ممنون حسین گورنر سندھ کے عہدے پر برقرار رہیں مگر ممنون حسین نے یہ کہہ کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’جب گورنر کے عہدے پر مقرر کرنے والے شخص کی حکومت پر شب خون مارکر اُسے اقتدار سے ہٹادیا گیا تو میں کس طرح یہ عہدہ قبول کرسکتا ہوں؟‘‘
ممنون حسین نے صدر مملکت کے منصب کیلئے بھی کسی لابنگ کا سہارا نہیں لیا بلکہ یہ سرپرائز بھی میاں نواز شریف نے اُنہیں اچانک دیا۔ صدر بننے کے بعد بھی ممنون حسین کا کراچی اور یہاں موجود اپنے 53سال پرانے دوستوں سے تعلق ختم نہیں ہوا۔ممنون حسین برج کے بڑے شوقین ہیں، وہ اکثر اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر کراچی تشریف لاتے ہیںاور دوستوں کے ساتھ برج کھیلتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے جب وہ کراچی آئے تو پاکستان کے معروف بزنس مینوں پر مشتمل وفد نے میری قیادت میں اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کراچی میں اُن سے ملاقات کی۔ میں یہ دیکھ کر بڑا متاثر ہوا کہ صدر ممنون حسین وفد میں شامل زیادہ تر بزنس مینوں کو نام سے جانتے تھے جن میںبشیر جان محمد بھی تھے جو ممنون حسین کے ساتھ گورنمنٹ کامرس کالج میں پڑھا کرتے تھے۔ اس موقع پر میں نے مسلم لیگ (ن) حکومت کی کارکردگی کا گزشتہ حکومت سے موازنہ پیش کرتے ہوئے کراچی میں امن و امان کی بحالی، دہشت گردی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور اکنامک گروتھ جیسے اقدامات پر موجودہ حکومت کو سراہا اور بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کئے جانے کے بعد ملک میں غیر یقینی صورتحال سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ لاہور میں اتنے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے ہیں کہ جب کراچی کے شہری لاہور سے واپس لوٹتے ہیں تو احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ دوران ملاقات صدر ممنون حسین نے کہا کہ گرین لائن بس پروجیکٹ، K-4 واٹر پروجیکٹ، لیاری ایکسپریس وے اور مختلف انفراسٹرکچر منصوبے وفاقی حکومت کا کراچی کیلئے تحفہ ہیں، اس کے علاوہ وفاقی حکومت کراچی کے انفراسٹرکچر کیلئے اضافی 25 ارب روپے فراہم کررہی ہے۔ صدر نے کہا کہ کراچی پاکستان کا اہم شہر اور معاشی حب ہے، اُنہیں یہ سن کر خوشی ہوئی کہ بزنس کمیونٹی نے 2013ء کے 2000 ارب روپے ریونیو کے مقابلے میں رواں سال 4000 ارب روپے ریونیو ادا کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بزنس مینوں کے ساتھ میٹنگ منعقد کرنے پر میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ بزنس کمیونٹی اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔ دوران ملاقات وفد میں شامل معروف صنعتکاروں اور بزنس مینوں بشیر جان محمد، امتیاز حسین عباسی، فیصل حسین، زاہد سعید، آصف نثار، حسن بخشی اور میاں زاہد حسین نے مسلم لیگ (ن)، حکومت کو اپنے مکمل تعاون اور حمایت کا یقین دلایا۔
صدر ممنون حسین سے ملاقات کے دوران مجھے جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ اُنکی اِس عمر میں حاضر دماغی تھی، اُنہیں اب تک اپنے پرانے دوستوں اور اُنکے قصے یاد ہیں۔ ممنون حسین اصول پسند شخصیت کے حامل ہیں، اُنکی اصول پسندی کا ایک واقعہ اُن کے دوستوں میں مشہور ہے کہ ممنون حسین جب گورنر سندھ تھے تو اُن کی بہو نے درخواست کی کہ آئی بی اے میں ایڈمیشن کیلئے کچھ نمبرز کی کمی کے باعث اُن کا نام ویٹنگ لسٹ پر ہے۔ ممنون حسین چاہتے تو اپنی بہو کا ایڈمیشن باآسانی کرواسکتے تھے مگر انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ’’آپ کہیں اور سے ایم بی اے کرلیں۔‘‘ بعد میں اُن کی بہو نے کسی دوسری یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ ممنون حسین کی بہو آج بھی بڑے فخریہ انداز سے کہتی ہیں کہ ’’ابا نے میری کوئی مدد نہیں کی لیکن میں اُن کی اصول پسندی پر فخر کرتی ہوں۔‘‘
ممنون حسین کا شمار نواز شریف کے اُن ساتھیوں میں ہوتا ہے جن پر وہ اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اُنکے مقرر کئے ہوئے صدور رفیق تارڑ اور ممنون حسین نے اُنہیں کبھی مایوس نہیں کیا مگر بینظیر بھٹو اس لحاظ سے بدقسمت رہیں کہ اُنکے مقرر کئے گئے صدر فاروق لغاری نے ہی اُن کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر مملکت کو سزا معاف کرنے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے لیکن صدر ممنون حسین نے یہ اختیار کبھی استعمال نہیں کیا مگر آج حالات جس سمت جارہے ہیں اور جیسے غیر مقبول فیصلے آرہے ہیں اس سے یہ تاثر ابھرکر سامنے آرہا ہے کہ صرف ایک ہی شخص اور اُسکی فیملی کو ہدف بنایا جارہا ہے، شاید مستقبل قریب میں صدر پاکستان کو اپنا یہ اختیار استعمال کرنا پڑے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین