• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سینیٹ کے انتخابات ا ور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہبر نواز شریف کے ساتھ ناقابل تصور حد تک افسوسناک واقعہ نے لوگوں کو حواس باختگی میں مبتلا کردیاہے ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کا بیانیہ عملاً وقوع پذیر ہونے یعنی عام انتخابات کے موقع پر اس کا مظاہرہ کرنے کا لمحہ آنے کے بارے میں وہ واضح شک و شبہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹس قومی تباہی کے اندیشوںسے بھرپور ایسے اجتماعی مراحل کا ادراک کرنے سے عاری رہی ہیں۔ وہ Target Oriented ہوتی ہیں۔ انہیں قوموں اور وطنوں کے دردمندانہ تذکروں کی کیمسٹری چھوتی ہی نہیں۔ جیساکہ پاکستان کے گزرے 70برسوں کی قومی و سیاسی تاریخ کا تسلسل اس سچائی کا مجسم ثبوت ہے۔ نواز شریف صاحب کہتے ہیں ’’ہمارے اگلے 70سال گزشتہ70سالوں سے بہتر ہونے چاہئیں۔‘‘ یہ ایک آبرومندانہ آرزو اور متوقع قومی تفاخر کا منظرنامہ تو ہوسکتاہے، اس کا اسٹیبلشمنٹس کی عملیت میں ڈھلی ہوئی ذہنی کیمسٹری سے کوئی تعلق نہیں۔ وہاں اصولی حیات طاقت کے بطن سے پیدا شدہ یاہونے والی امکانی شکل فیصلہ کن ہے۔ باقی سب کچھ غیرپیداواری اضافی عنصر ہے جس کا کسی صلح جو معاہدے یا متحارب کشمکش میں کوئی کردار ہو ہی نہیں سکتا!
ہم پاکستان کے تناظر میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب لوٹتے ہیں۔ وہ اپنی آخری آرام گاہ سے پاکستان کی روزمرہ قومی سیاست کے ایک جاری و ساری عنصر کی حیثیت سے پاکستان کے قومی سیاسی خمیر کی منازل میں فیصلہ ساز کردار کی حیثیت سے تادم تحریر موجود ہیں۔ بھٹو صاحب کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نشانہ بنایا۔ انہوں نے اپنی حالت کے تناظر میں ’’باطنی ریاست‘‘ (Deep State) کی بُنت بیان کی۔ ملاحظہ فرمایئے۔پاکستانی سینیٹ کے حالیہ انتخابات اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہبر نواز شریف کے ساتھ ناقابل تصور، افسوسناک واقعہ سے برآمد بولتی تصویر کا پیغام سیدھا ایک کشف کی طرح آپ کے دل میں اترے گا!
ان کا کہنا ہے:۔ ’’بگاڑ کا یہ عمل 5جولائی 1977 کو شروع نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا آغاز اس وقت ہو گیا تھا جب اکتوبر 1954کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا۔ پاکستان کی وفاقی عدالت نے اسمبلی کی تحلیل کو اس مبہم عمومی سچائی پر جائز قرار دے دیا کہ لوگوں کی فلاح و بہبود ہی اعلیٰ ترین قانون ہے۔‘‘
’’دوسرا دھچکا اس وقت لگا جب غیرقانونی اور بے تکے پن سے ون یونٹ کا نفاذ کیا گیا۔ بانس کیکن کے ’’قانون کا خالص نظریہ‘‘ کی غلط تشریح کرتے ہوئے مارشل لا کو جائز قرار دے دیا گیا۔ ایوب خان نے ملک میں لاتعداد سرسری فوجی عدالتیں قائم کردیں۔ سرسری فوجی عدالتیں اعلیٰ اور ’’طاقتور‘‘ لوگوں کو سزائیں اور عام آدمی کو انصاف دیں گی۔ سرسری فوجی عدالتوں کو کام شروع کئے ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایوب خان نے اپنی کابینہ کا اجلاس کراچی میں منعقد کیا اور انہیں فوراً ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایوب خان کے اس فیصلے کے ساتھ مغربی پاکستان کے گورنر اختر حسین اور مشرقی پاکستان کے گورنر ذاکر حسین نے مکمل اتفاق کیا۔
کابینہ کی میٹنگ کے دوران صرف جنرل برکی نے مخالفت کی اور اس فیصلے کو مارشل لا میں تخفیف کے مترادف سمجھا۔ سرسری فوجی عدالتوں میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا اس کو منظور قادر نے مفصل بیان کیا کہ کیوں ضروری ہو گیا تھا کہ فوجی عدالتوں کو ختم کردیا جائے۔ جب انہوں نے اپنی عالمانہ تقریر ختم کی اور کیمبرج کے مہذب لہجے میں جنرل برکی کی طرف منہ کرکے کہا ’’جنرل، مارشل لا تخفیف اور پاکستانی افواج کی تذلیل کے درمیان ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے،‘‘ سرسری فوجی عدالتوں کو ختم کردیا گیا۔‘‘
’’ایک ایسی فوجی حکومت جو آئین کو معطل یا منسوخ کردے اور ملک کو اپنے ترنگ اور من کی موج کے مطابق چلائے، اسے اپنے ہونٹوں پر لفظ ’’قانون‘‘ لاتے ہوئے شرم آنی چاہئے..... یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا یہ کہنا کہ مقدس قرآن معطل کردیا گیا ہے لیکن کوئی شخص حدیث سے راہ ِ فرار اختیار نہیں کرسکتا۔ شرمندگی کی دوسری صورت اس وقت کھلے گی جب پاکستان کا فوجی ٹولہ پاکستان کے صدر کو ان کے عہدہ سے ہٹائے گا۔ 5جولائی 1977 کی افتتاحی تقریر کے مطابق پاکستان کےصدر فضل الٰہی کو صدر کے عہدے پرآئین کے تسلسل کی علامت کے طور پر برقرار رکھا گیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے گراہم گرین کو کہا جائے کہ وہ قانونی ناول لکھیں۔ بدقسمتی سے اگاتھا کرسٹی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے تاہم مجھے شک ہے کہ وہ بھی اس قتل کا معمہ حل کرسکے!‘‘
’’میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ وہ جرنیل جنہوں نےیہ موجودہ فوجی حکومت بنائی ہے اس وقت اتنے پریشان کیوں ہوگئے تھے جب مجیب الرحمٰن نے دھمکی دی تھی کہ وہ ڈھاکہ میں جنگی مقدمات شروع کرے گا، یہ جرنیل اتنے کیوں پریشان تھے کہ ان مقدمات کی کارروائی شروع نہ کی جائے؟ اگر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ موجودہ فوجی حکومت ماضی کی لغزشوں کی ذمہ دار نہیں ہے اور یہ کہ موجودہ فوجی حکومت بلا کم و کاست احتساب کر رہی ہے کیونکہ ماضی میں بہت سارے غلط کام ہوئے تھے، تو پھر کئی طرح کے سوال پیدا ہوتے ہیں۔
O۔ اس فوجی ٹولے کے پاس وہ کون سا اختیار اور مینڈیٹ ہے جس کی بنا پر وہ احتساب کرسکتا ہے؟
O۔ یہ احتساب مکمل طور پر یک طرفہ اوربظاہر امتیازی کیوں ہے؟
O۔ کیایہ احتساب قانونی ہے کہ فوجی ٹربیونلز قائم کئے جائیں جہاںایسے لوگوں کو کھینچا جائے جنہیں اپنے دفاع کے لئے وکلا بھی میسر نہیں ہیں۔
O۔ یہ فوجی حکومت کسی طرح کا بھی احتساب نہیں کررہی کیونکہ اس فوجی حکومت کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ احتساب کرسکے غیرقانونی اور امتیازی سزا کبھی بھی احتساب نہیں ہوتی کیونکہ یہ انتقام اور بغض کی قدیم ترین شکل ہے۔
’’اگر یہ عام آدمی جس کا تعلق گڑھی خدا بخش سے ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلا مجرم ہے تو اسے احتساب کاکوئی خوف نہیں لیکن اس عام آدمی کا مطالبہ ہے کہ وہ عوام کے ہاتھوں خالص احتساب چاہتا ہے۔ ان ہاتھوں سے احتساب نہیں چاہتا جنہوںنے دھرتی کے اعلیٰ ترین قانون کو بڑے غرورسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔ پاکستان کے منتخب صدر کی حیثیت سے میں پہلا سربراہ ِ ریاست اور سربراہ ِ حکومت تھا جس نے 20دسمبر 1971کو قوم کے نام خطاب میں کہا تھا کہ احتساب ہونا چاہئے لیکن یہ احتساب عوام اور پارلیمینٹ کے ذریعے ہوگا۔ یہ احتساب بیرکوں سے نکلے ہوئے غاصبوں کی ٹولی کے ذریعے نہیں ہوگا جن کا کام ہی یہی ہے کہ وہ احتساب کے نام پر ناانصافی اور جرم کاارتکاب کریں۔‘‘
پاکستانی سینیٹ (ایوان ِ بالا) کے حالیہ انتخابات کی تفصیلات اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہبر نواز شریف کے ساتھ ناقابل تصور حد تک افسوسناک واقعہ، دونوں کے درمیان آپ ذوالفقار علی بھٹو کا بیانیہ رکھیں۔ مارشل لا، احتساب، غاصب ٹولہ، عدلیہ کے پس منظر میں اس بیانئے کی لفظی تجسیم اور اس تجسیم سے ابھرتی منطقی فکر، آپ کو ان د ونوں تازہ ترین واقعات کے قومی نقطہ نظر سے تباہ کن تار پود کے ایک ایک ریشے کی شناخت کرادے گی!
نواز شریف نے، اپنے ماضی سے پیٹھ موڑتے ہوئے، ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے دروازے پر پوری شرح صدر کے ساتھ دستک دے دی ہے چنانچہ یہاں بھی سوال آصف علی زرداری کی سیاسی شطرنج بازی میں مہارت کا نہیں نواز شریف کا پاکستان کی بقا کے واحد قومی راستے کی فیصلہ کن جنگ میں کھڑے رہنے یا نہ رہنے کا ہے!
پاکستان میں آئینی اور غیرآئینی طرز ِ فکر و عمل کے مابین جاری اس جنگ کا آئندہ مرحلہ نواز شریف کے حوالے سے قوم کو حتمی نتیجے تک پہنچادے گا، جب نگران حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ وفاق اور صوبائی سطح پر اقتدار کی طاقت سے دوسروں کی طرح وہ بھی تہی دست ’’رڑے ‘‘ پرکھڑے ہوںگے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ’’باطنی سیاست‘‘ بلاواسطہ یا بالواسطہ ان کی پشت پناہ نہیں ہوگی، تب نواز شریف کا ماضی سے پیٹھ موڑ کر ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے مقدس ترین مشن پر قیام، برقرار رہتا ہے یا نہیں؟
ہم سب کو انکشافات کے بجائے اس نزدیک ترین گھڑی کا انتظار کرنا ہوگا۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین