• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرا تصور کیجیے کہ آپ معاشی طور پر انتہائی مضبوط پوزیشن کے حامل ہیں لیکن آپ کے پڑوس میں آپ کے دشمن کے پاس خطرناک قسم کے ہتھیار ہوں، جسے آپ کی ترقی ایک آنکھ نہ بھاتی ہو، جو کسی قسم کے قوانین کی پاسداری بھی نہ کرتا ہو اور پھر آپ کے علاقے کا تھانیدار بھی زبانی طور پر آپ کے ساتھ ضرور ہو لیکن حقیقت میں وہ آپ کے دشمن کے ساتھ کھڑا ہو اس صورت میں آپ اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو کس قدر غیر محفوظ تصورکریں گے، خاص طور پر اس وقت جب آپ پر اپنے دفاع کے لئے ہتھیار خریدنے اور استعمال کرنے کی سخت پابندی عائد ہو لیکن آپ کے پڑوسی دشمن کو ہر طرح کے ہتھیاروں کو رکھنے اور استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہو تو صورتحال اور بھی سنگین ہوجاتی ہے، یہی صورتحال اس وقت جاپان کے ساتھ بھی درپیش ہے جہاں شمالی کوریا بطور ایک پڑوسی ملک جاپان کے لئے شدید احساس عدم تحفظ کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں سے لیکر ہائیڈروجن بم جیسے خطرناک ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ امریکہ جو علاقے کا تھانیدار ہونے کے باوجود شمالی کوریا کے ساتھ انتہائی نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاپانی عوام کو مزید عدم تحفظ میں مبتلا کررہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جاپان کے لئے صاف طور پر اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جاپان میں امریکہ کی چالیس ہزار سے زائد فوج تعینات ہے جس کے اخراجات کے لئے جاپان سے مزید رقم کا تقاضاکیا جائے گا اور اگر اضافہ نہ ہواتو امریکہ کو جاپان سے اپنی افواج نکال لینی چاہئیں اور جاپان کو اپنی سلامتی کے لئے خود اقدامات کرنا ہونگے، اس خطرناک بیان سے جاپانی حکومت اور عوام میں شدید احساس عدم تحفظ پیدا ہوا کیونکہ جاپان نے ہمیشہ ہی اپنی سلامتی کے لئے امریکہ پر بھروسہ کیا ہے۔ جس کی اہم وجوہات ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ سے شکست کے بعد امریکہ کی نگرانی میں بننے والے جاپانی آئین میں صاف طور پر یہ تحریر کرایا گیا تھا کہ جاپان کے دفاع کی ذمہ داری امریکہ پر ہوگی اور امریکی افواج جاپان میں قیام کریں گی جبکہ جاپان ایک محدود تعداد میں افواج رکھ سکے گا لیکن یہ افواج صرف جاپان کے دفاع میں استعمال ہونگی اور جاپان کی سرحد سے باہر کوئی ایکشن نہیں کرسکیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان اپنے دفاع کے لئے دو لاکھ کے قریب افواج رکھتا ہے لیکن ان کا کردار محدود ہے جبکہ امریکہ کی چالیس ہزار سے زائد افواج کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جاپان امریکہ کے کئی دفاعی معاہدوں میں شامل ہے جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جاپان کی سلامتی کا ذمہ دار امریکہ ہے یہی وجہ ہے کہ جاپان نے اپنی تمام تر توجہ صنعتی ترقی پر مرکوز رکھی ہے جس کے نتیجے میں جاپان دنیا کی معاشی سپر طاقت تو بن گیا لیکن ماضی کی دشمنی اور ملک میں آمریت نے شمالی کوریا کو خطرناک دفاعی طاقت بنادیا، شمالی کوریا کو خطرناک اور غیر ذمہ دار دفاعی طاقت بننے میں چین اور امریکہ کا کردار بھی قابل ذکر ہے، کیونکہ امریکہ نے عالمی تھانیدار ہونے کے باوجود شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر نظر نہ رکھ کر اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کی جبکہ چین کی حمایت اور مدد نے ہمیشہ شمالی کوریا کو طاقت فراہم کی۔ جہاں تک چین کی بات ہے تو یہ بات مان لینی چاہیے کہ اسے اپنے دفاع کے لئے دو پڑوسی ممالک کی ضرورت تھی جہاں وہ اپنی حکمت عملی کے ذریعے اپنی جغرافیائی سلامتی کا تحفظ کرسکے اور اپنی جنگ دوسروں کی سرزمین پر لڑ سکے۔ جس میں چین پوری طرح کامیاب بھی رہا ہے، اس نے شمالی کوریا کو طاقت اور حمایت دیکر اپنی مشرقی سرحدیں محفوظ کرلی ہیں لہٰذا جاپان اور جنوبی کوریا چین تک پیش قدمی کرنا بھی چاہیں تو انھیں شمالی کوریا سے گزرنا ہوگا اور شمالی کوریا کے پاس خطرناک ایٹمی ہتھیار کسی بھی ملک کو چین تک پیش قدمی کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری جانب ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے جاپان اور جنوبی کوریا میں وسیع ترمفادات موجود ہیں جس کے لئے امریکہ دونوں ممالک میں اپنی افواج کی مستقل تعیناتی چاہتا ہے لہٰذا اپنی افواج کو رکھنے کے لئے کوئی جواز بھی ہونا چاہیے تو شمالی کوریا سے بڑھ کر جواز اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس لئے شمالی کوریا کو خطرہ بنا کر امریکہ اپنی افواج جاپان اور جنوبی کوریا میں رکھنے کا اہل ہوسکتا ہے اور شمالی کوریا کا خطرہ ہی جاپان اور جنوبی کوریا کو امریکہ پر دفاعی دارومدار قائم رکھنے کی وجہ بن سکا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےشمالی کوریا کے صدر کم جانگ ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس میں شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو بند کرنے پر مذاکرات کیے جائیں گے تاہم شمالی کوریا نے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے پر حامی بھرنے سے انکار کردیا ہے۔ امریکی صدر کی شمالی کوریا کے حکمران سے ملاقات کے امکان پر جاپانی میڈیایہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس ملاقات سے خطے میں کیا مثبت تبدیلی آسکتی ہے کیا شمالی کوریا جاپان کے خلاف اپنے سخت موقف سے باز آجائے گا یا پھر ملاقات کی ناکامی کی صورت میں خطے پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ اس وقت جاپانی عوام میں، دفاع میں خود مختار ہونے کی سوچ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے کیونکہ ماضی میں جاپان اور چین کے درمیان جزیروں کی ملکیت پر کشیدگی پیدا ہونے پر جب جاپان نے امریکہ سے مدد طلب کی تو امریکہ نے جاپان کو واضح پیغام دے دیا کہ یہ چین اور جاپان کا آپس کا معاملہ ہے لہٰذا وہ اس معاملے میں فریق نہیں بنے گا اور جاپان کو یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اس خطرناک صورتحال میں امریکہ کا پیچھے ہٹ جانا جاپان کے لئے علامتی خطرہ تھا کہ امریکہ پر کس قدر بھروسہ کیا جانا چاہیے۔ جس کے بعد جاپان کے کئی ارکان پارلیمنٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جاپانی آئین میں تبدیلی لائے اور اپنی افواج میں اضافہ کرے اور جدید ہتھیاروں کی تیاری اور تعداد میں بھی ضافہ کرے تاکہ جاپان اپنی سلامتی کے لئے امریکہ کا زیرنگیں نہ رہے تاہم جاپانی حکومت نے اس مطالبے پر ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ لیکن لگتا ہے کہ جاپان اپنی سلامتی اور خودمختاری کے لئے امریکہ پر طویل عرصہ تک دارومدار نہیں کرے گا اور جلد ہی آئین میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنی مسلح افواج کو جدید خطوط پر تیار کرے گا جو ملک کا بہترین دفاع کرسکیں گی۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین