• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تراشے

تہذیبی دائرے

ادب اور ہر تخلیقی سرگرمی کا تعلق براہِ راست نظامِِ خیال سے ہوتا ہے۔ ہر نظامِ خیال، اندرونی طور پر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے، جس کی اپنی مخصوص روح، مخصوص شخصیت اور مزاج ہوتا ہے۔ یہ روح اپنا اظہار، اپنے علوم و فنون، اپنے فلسفے، اپنے اداروں اور اپنی متنوع تخلیقی سرگرمیوں کے ذریعے کرتی ہے۔ ہر تخلیقی سرگرمی ایک زندہ نظامِ خیال کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور نظامِ خیال کے انجماد کے ساتھ اپنے سارے تہذیبی اداروں اور اظہار کے سانچوں کے ساتھ خود بھی منجمد ہوجاتی ہے۔

 ہمارے تہذیبی تعقل اور بے معنویت کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا کلچر اور اس کے تہذیبی سانچے، مغربی کلچر کے ہاتھوں مکمل فنا پر راضی نہیں ہورہے ہیں۔ ایک طرف مغرب کا کلچر، سائنسی ترقی کے ساتھ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو ہمارے اپنے نظامِ خیال کے تہذیبی دائرے سے باہر کھنچ رہا ہے اور دوسری طرف اس دائرے کی مرکزی کشش اسے اپنے اندر کی طرف کھینچ رہی ہے، اس لیے ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ، معطل کھڑا ہے اور سارا سماج انتشار، تضاد، کش مکش، تصادم، بے یقینی اور عدم توازن کا شکار ہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب ’’کچھ جدیدیت کے بارے میں‘‘ سے اقتباس)

جدید زندگی اور سائنس

روسو نے کہا تھا کہ ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے، لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے‘‘ روسو کی اس بنیادی فکر نے انسان کو جہاں چھوڑا تھا، وہیں سے انقلابِ فرانس نے اپنی ذمے داری قبول کرلی، مارکس اسی روشن خیالی کی پیداوار تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جدید سرمایہ دارانہ معاشرے میں، محنت کش طبقہ ہی بورژوا طبقے سے برسر پیکار ہوگا اور جب محنت کش، جس پر پیداوار کی براہ راست ذمے داری ہے اپنی تقدیر کا آپ مالک ہوجائے گا تو انسان کو ظلم اور جبر سے نجات مل جائے گی۔

(قمر جمیل کی کتاب ’’جدید ادب کی سرحدیں‘‘ سے اقتباس)

علامتی یا تجریدی افسانے

افسانہ، علامتی ہو یا تجریدی، اس میں لغوی معنی صرف ایک طرح کا اشارہ کردیتے ہیں، باقی کام پڑھنے والے کی ذہنی استعداد کا ہے۔ دراصل لفظوں کے ظاہری، منطقی اور لغوی معنی کے علاوہ اور معنی بھی ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں اس رجحان کے نمائندہ افسانہ نگار، مندرجہ ذیل ہیں، انتظار حسین (ہم سفر) عبداللہ حسین (جلا وطن) خالدہ اصغر (ایک بوند لہو کی، سواری، بے نام کہانی) انور سجاد (چوراہا، گائے، پرند کی کہانی) اور غلام الثقلین (لمحے کی موت، وہ سرگوشی) ہندوستان میں اس کو آگے بڑھانے والوں میں دیوندرسر، بلراج منرا، سریندر پرکاش، راج اجے، بلراج کومل، کمار پاشی اور احمد ہمیش کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ علامتی اور تجریدی افسانے میں جو ایک طرح کی یاسیت، شکست خوردگی اور مایوسی کی فضا ملتی ہے، اُس کا تعلق اتنا وجودیت سے نہیں، جتنا ملک کے ان مخصوص حالات سے ہے، جنہوں نے وجودیت کے اثرات کے لیے راہ کھول دی ہے۔

 نئی نسل کو آزادی کے بعد ہی خون کے دریا سے گزرنا پڑا۔ وہ تہذیبی قدریں، جو ہم کو بے حد عزیز ہیں، جنہوں نے اُردو کو ایک عظیم الشان تہذیبی اور لسانی مفاہمت کی شکل میں پیدا کیا تھا، ہمارے سامنے پارہ پارہ ہونا شروع ہوگئیں۔ اُردو زبان کو اس کا جائز حق آج تک نہیں ملا۔

(ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’جدید تر اردو افسانے اور اس کے رجحانات‘‘ سے ایک اقتباس)

تازہ ترین