• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان، شدید قلت کے شکار ممالک میں 36 ویں نمبر پر

راؤ محمد شاہد اقبال،نواب شاہ

پانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہی نہیں، بلکہ پانی ہی زندگی ہے، کیوں کہ اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں تو زرعی، صنعتی اور معاشی سرگرمیوں کا تصوّر بھی محال ہے۔ اگرچہ، کرۂ ارض کا75فی صد حصّہ پانی ہی پر مشتمل ہے، لیکن اس دست یاب پانی کا 97.5فی صد حصّہ نمکین یعنی پینے کے قابل نہیں، جب کہ صرف 2.5فی صد ہی پانی میٹھا ہے۔

 اس میٹھے پانی کی فراہمی میں گلیشیئر کا حصّہ 68.7فی صد، زیرِ زمین پانی کا 30.1فی صد، زمینی اور بخاراتی پانی کا تناسب 0.4فی صد ہے۔ ماہرینِ آب کے مطابق، بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی، غیر متوقّع موسمیاتی تبدیلیاں اور گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا بھر میں صاف اور میٹھے پانی کے سب سے بڑے ماخذ، گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے سمندر کی سطح بلند ہونے کے ساتھ، سمندری طوفان، سیلاب اور خشک سالی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی پینے کے صاف پانی تک انسان کی آسان رسائی کو مشکل بنانے کی ایک اہم ترین وجہ بھی ہے۔ 

اس وقت دنیا میں ایک بلین سے زاید انسانوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں۔ ان میں زیادہ تر یعنی 672 ملین افراد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں، جب کہ185 ملین افراد ایسے بھی ہیں، جو فضلہ ملا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق، صاف پانی کی عدم دست یابی پیٹ کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے اور آلودہ پانی کے نتیجے میں ہر سال842000 افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں، جن میں پانچ سال سے کم عُمر کے361000 بچّے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، پانی کی کمی سے خوراک کی قلّت، مال مویشی کی ہلاکتیں، بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلاء، معاشی اور سیاسی حالات میں بگاڑ جیسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ 

عالمی ادروں کے نزدیک صاف پانی کی فراہمی کا معیار یہ ہے کہ صاف پانی کے پائپ آپ کے گھر تک پہنچتے ہوں، جہاں ایک عدد ٹونٹی لگی ہو اور اس میں صاف پانی بھی آتا ہو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے ،تو جنوبی ایشیا کے صرف23 فی صد شہریوں ہی کو یہ سہولت میّسر ہے۔ صاف پانی کی اسی اہمیت و ضرورت کے اعتراف اور آگاہی کے لیے اقوامِ متحدہ کے زیرِاہتمام1993 ء میں پہلی بار 22 مارچ کو’’ پانی کا عالمی دن‘‘ منایا گیا۔ رواں سال اس دن کو’’ فطرت اور پانی‘‘ کے عنوان سے منایا جارہا ہے تاکہ کرۂ ارض پر بسنے والوں کو یہ بات باور کروائی جاسکے کہ پینے کا صاف پانی، کسی حکومت کی طرف سے اپنے مُلک کے عوام کو دی جانے والی کوئی خصوصی سہولت نہیں، بلکہ یہ انسان کا بنیادی حق ہے۔

صاف پانی کی ’’شفّاف ‘‘تعریف کیا ہے؟: ہمارے ہاں عام طور پر پانی کے پینے کے قابل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ، صرف اس کے میٹھے یا کھارے ہونے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ گھر میں بورنگ کروائی، پانی چکھا، اگر ذائقہ میٹھا ہے تو سمجھ لیتے ہیں کہ پانی پینے کے لیے ٹھیک ہے اور اگر کھارا ہے تو پینے کے قابل نہیں۔ حالاں کہ اس کا فیصلہ صرف ذائقے پر نہیں، بلکہ اس میں موجود نمکیات یعنی TDSکی بنیاد پر ہوتا ہے۔

پاکستان، شدید قلت کے شکار ممالک میں 36 ویں نمبر پر

 TDS سے مراد Total dissolved solidsہیں۔ اس کے علاوہ PPM کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے، جو Parts Per Million کا مخفّف ہے، یعنی پانی میں شامل ضروری معدنیات کی مناسب مقدار، جنہیں عرفِ عام میں نمکیات بھی کہا جاتا ہے۔ ان ہی نمکیات کی کمی یا زیادتی پر پانی کے معیاری یا غیر میعاری ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ منرل واٹر کا معیاری TDS، عموماً300 کے قریب ہوتا ہے، جو کہ عالمی ادارۂ صحت کا مقرّر کردہ معیار ہے۔ اس 300 ٹی ڈی ایس کے پانی میں کیلشم، میگنیشم، کلورائیڈ، فلورائیڈ، آرسینک، نائیٹریٹ، آئرن، سلفیٹ شامل ہوتے ہیں اور یہ پانی انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید قرار دیا جاتا ہے، لیکن TSDکا 300سے بہت بڑھ جانا یا بہت کم ہو جانا انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ بلکہ بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

 بازار میں فروخت ہونے والا معیاری منرل واٹر 300TDS ہوتا ہے، جسے’’ Reverse Osmosis‘‘ یعنی ROپلانٹ کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے یا پھر بارش کا پانی اس 300 ٹی ڈی ایس کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ بارش کا یہ پانی، پہاڑوں پر برف کی صُورت گرتا ہے، تو کہیں ندی نالوں اور خشک زمین پر برستا ہے اور یہیں سے اس میں معدنیات شامل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ خاص مقدار میں خاص قسم کے معدنیات، منرلز کہلاتے ہیں اور اگر ان کی تعداد بڑھ جائے، تو ہم کہتے ہیں کہ اس پانی کا TDS بڑھ گیا ہے۔ یہ ٹی ڈی ایس ایک لاکھ یا اس بھی زیادہ بڑھ سکتا ہے۔ جتناTDSزیادہ ہوگا، پانی اُتنا ہی زہریلا ہوتا چلا جائے گا۔

بارش کا پانی: دو حصّے ہائیڈروجن اور ایک حصّہ آکسیجن یعنی ایچ ٹو او، صرف بارش ہی کا پانی ہوتا ہے۔ یعنی’’ خالص پانی‘‘ یہی ہے۔ قدرتی حالت میں بارش کا پانی خالص ہوتا ہے، جب کہ گلیشیئرز پر جمی برف بھی خالص پانی ہی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، کرۂ ارض پر پایا جانے والا کوئی پانی خالص یعنی صرف ایچ ٹو او پر مشتمل نہیں ہوتا۔

دریا کا پانی: دریاؤں میں پانی، بارش اور پہاڑوں پر جمی برف کے پگھلنے سے آتا ہے۔ بارش کا پانی جونہی زمین کی سطح سے ٹکراتا ہے، تو مٹّی میں موجود معدنیات اس میں جذب ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑی علاقوں سے گزرنے والے دریا کے پانی میں معدنیات نسبتاً کم اور میدانی علاقوں سے گزرنے والے دریائی پانی میں معدنیات زیادہ ہوتی ہیں۔

 دریا کے اُس حصّے میں سب سے زیادہ نمکیات یا TDS ہوتے ہیں، جہاں پر پانی سمندر میں گرتا ہے، کیوں کہ یہ پانی سب سے زیادہ زمینی سفر طے کرچکا ہوتا ہے۔ 

دریائی پانی میں غیر حل شدہ ذرّات اور جراثیم بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی ادارے انہیں عوام تک پہنچانے سے پہلے فلٹر کرکے تمام غیر حل شدہ پارٹیکلز الگ کرلیتے ہیں اور جراثیم سے پاک کرنے کے لیے کلورین وغیرہ سے گزارتے ہیں۔ دریائی پانی میں عموماً 500سے 900 تکTDSپائے جاتے ہیں۔

بورنگ کا پانی: بورنگ واٹر یعنی ہینڈ پمپ کا پانی، دریائی پانی سے زیادہ’’ کھارا‘‘ ہوتا ہے۔ اگر کسی کنویں یا ہینڈ پمپ کا پانی پینے میں’’ میٹھا‘‘ لگے، یعنی اس میں کھاراپن بالکل بھی نہ ہو، تب بھی اس پانی میں1000سے1500 تک TDSہوتے ہیں۔ دیہات کے لوگ تو ہلکا ہلکا کھارا پانی بھی پینے پر مجبور ہیں، جس کا TDS دو ہزار تک ہوتا ہے، جو کہ صحت کے لیےانتہائی مضر ہے۔

سمندرکا پانی: ہم سب جانتے ہیں کہ سمندر کا پانی بہت زیادہ کھارا ہوتا ہے، تاہم سمندر کے مختلف حصّوں میں نمکیات کا تناسب مختلف ہوتا ہے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں کے سمندری پانی کا TDSتیس، پینتیس ہزار سے90 ہزار تک ہے۔

پاکستان کا سب کچھ پانی پہ ہے: پاکستان زرعی، معدنی اور دیگر قدرتی خزانوں کے ساتھ، بہترین آبی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ اگر انہیں صحیح معنوں میں بروئے کار لایا جاتا، تو پاکستان دنیا کا ایک خوش حال ترین اور ترقّی یافتہ مُلک بن سکتا تھا، مگر افسوس کہ حکم ران طبقے کی غلط ترجیحات نے مُلک کو پانی کے سنگین مسائل سے دوچار کر دیا۔

 زرعی مُلک ہونے کے ناتے پانی کی بوند بوند پاکستان کے لیے اہم ہے، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کی طرف نقل مکانی، موسمیاتی تبدیلیوں اور عاقبت نااندیش حکومتوں کی کوتاہیوں نے پاکستان کو پانی کی شدید قلّت کے شکار مُمالک کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے۔

 پاکستان کے تین بڑے آبی ذخائر منگلا، تربیلا اور چشمہ ڈیمز میں صرف 60 سے 90 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رہ گئی ہے، حالاں کہ عالمی معیار کے مطابق کم از کم 120 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ دوسری جانب، ترقّی یافتہ ممالک ایک سے دو سال کے لیے باآسانی پانی ذخیرہ کررہے ہیں۔ اس وقت بھارت کے پاس 220 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، تو جنوبی افریقا 500 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ 

آسٹریلیا 600دن اور امریکا 900 دن کا پانی ذخیرہ کر رہا ہے، جب کہ مصر ایک ہزار دن کا پانی صرف ایک دریائے نیل سے ذخیرہ کر رہا ہے، مگر پاکستان میں دریاؤں کا بہ مشکل10 فی صد پانی ہی ذخیرہ ہو پاتا ہے۔ مُلکی دریاؤں میں آنے والے پانی میں سے 28 ملین ہیکٹر فٹ سے زاید ضایع ہو کر سمندر میں چلا جاتا ہے۔ 

ہمارے دریاؤں میں 144 ملین ہیکٹر فٹ پانی آتا ہے، جس میں سے صرف 13.8 ملین ہیکٹر فٹ پانی ذخیرہ ہوتا ہے اور اگر کبھی بارش زیادہ ہوجائے، تو پھر اضافی پانی ہمارے لیے سیلاب جیسی عفریت کا رُوپ دھار لیتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے38 ارب ڈالر سے زاید کا نقصان ہوا ہے۔ مارچ 2012 ء میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ’’ ورلڈ واٹر ڈویلپمنٹ رپورٹ‘‘ کے مطابق، سیلاب سے متاثرہ مُمالک میں پاکستان نویں نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت اور افغانستان کے آبی منصوبے بھی پاکستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

پانی کا مستقبل آلودہ ہے: انسانی آبادی 1927ء میں صرف2ارب تھی، جو 2011ء میں بڑھ کر 7ارب ہو گئی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء میں یہی آبادی9.3 ارب ہو جائے گی، جس کے لیے صاف پانی کے مزید ذخیروں کی ضرورت ہوگی۔ عالمی ادارۂ خوراک کے مطابق، 2050ء تک آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خوراک کی پیداوار میں70 فی صد اضافہ ناگزیر ہوگا، جب کہ عالمی واٹر ریسورسز گروپ کے اندازوں کے مطابق، تازہ پانی کے ذخائر میں نمایاں اضافہ ازحد ضروری ہے۔ 

اندیشہ ہے کہ2025ء تک 3ارب لوگ پانی کی کمی کا شکار ہوں گے، جس میں ایشیا اور افریقا کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔ اگر پاکستان کی صُورتِ حال پر بات کی جائے، تو ماہرین کو ڈر ہے کہ کہیں پاکستان2030 ء تک پانی کی شدید قلّت کے شکار 30 ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہو جائے۔

 اس وقت پاکستان اس فہرست میں36 ویں نمبر پر ہے۔ امریکی ادارے’’ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے مطابق، پاکستان میں 60سال پہلے فی فرد 50 لاکھ لیٹر پانی دست یاب تھا، جو اب پانچ گنا کمی کے بعد 10 لاکھ لیٹر فی فرد رہ گیا ہے۔ اس کے باوجود، افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ پانی ضایع کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے پانی ضایع کرنے کی روش ایسے ہی برقرار رکھی، تو ماہرین کو خدشہ ہے کہ ہم2025 ء تک اس فہرست میں پہلے نمبر پر بھی آسکتے ہیں۔ 

مسئلہ کون حل کرے… ؟اگر ہم نے زندگی کو معمول کے مطابق رواں دواں رکھنا ہے، تو پینے کے صاف پانی کو بچانا ہو گا، جس کے لیے پانی کے گھریلو، زرعی اور صنعتی استعمال میں سائنسی اندازِ فکر اپنانا ہوگا۔ پھر یہ کہ پانی کے دست یاب وسائل کی حفاظت کے ساتھ، بے ہنگم طور پر زیرِ زمین پانی کی نکاسی پر پابندی عاید کرنا ہو گی، کیوں کہ ہمارے ہاں زیرِ زمین پانی کے نکالنے کا کوئی ضابطہ نہیں ، جس کا جہاں اور جتنا دل چاہے زمین سے پانی نکال سکتا ہے۔ نیز، میٹھے پانی کے غیر انسانی استعمال سے متعلق بھی طریقۂ کار طے کرنا ہوگا۔ 

گاڑیوں اور گھروں کی غیر ضروری دھلائی پر مکمل پابندی لگانا ہوگی، تو صنعتی، زرعی اور گھروں کے مضر پانی کو میٹھے پانی میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے پانی کی سپلائی لائنز کو ٹھیک حالت میں رکھنا ہوگا اور انھیں ہر صُورت گٹر لائنز سے ملنے اور رِسنے سے بچانا ہو گا۔ زیادہ پانی کی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ایسی فصلوں کی کاشت کی، جن میں کم سے کم پانی درکار ہو، حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ 

فوری طور پر ایسے اُمور پر بھی توجّہ مرکوز کرنا ہوگی، جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشت کاری، گرے واٹر کی ری سائیکلنگ، واٹر پرائسنگ، پانی کے ذخائرمیں اضافے، پانی کی آلودگی میں کمی کے اقدامات کو فروغ مل سکے۔ ہمارے مُلک میں زرعی مقاصدکے لیے70 سے 94فی صد تک میٹھا پانی استعمال ہوتا ہے۔ جدید طرز اپنانے سے یہ شرح 50فی صد تک آسکتی ہے۔ سب سے زیادہ توجّہ آلودگی کے خاتمے، موسمی تغیّرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر دینا ہوگی تاکہ گلیشیئرز کے حد سے زیادہ پگھلاؤ، سطح سمندر کی بلند ہوتی سطح پر جلدازجلد قابو پایا جا سکے۔

 اس کے ساتھ، ہمیں پانی کے استعمال سے متعلق عوام کے رویّوں میں بھی مثبت تبدیلی لانے کے لیے ہرسطح پر مؤثر اور بھرپور آگہی مہم چلانا ہو گی۔ یہ ہی وہ اقدامات ہیں، جنہیں عملی جامہ پہنا کر ہم اپنی آیندہ نسلوں کے لیے قدرت کی اس نعمت اور بنیادی ضرورت، پانی کو بچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے اگر چاہیں تو ہمارے حکومتی ادارے سنگاپور کی مثال سامنے رکھ سکتے ہیں۔ 

سنگاپور پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ’’ واٹر اسٹریس‘‘ یعنی پانی کی کمی کا شکار مُلک ہے، کیوں کہ وہاں قدرتی گلیشئیرز، دریا، تازہ پانی کی جھیلیں یا دیگر قدرتی ذخائر موجود نہیں اور وہاں پانی کی طلب بھی دست یابی سے بہت زیادہ ہے۔ اس کے باوجود عمدہ مینجمنٹ، عالمی معاہدوں اور جدید ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کی بہ دولت سنگاپور کا شمار دنیا کے بہترین واٹر منیجرز ممالک میں ہوتا ہے۔ جو یقینًا ہمارے لیے باعثِ تقلید ہے۔

تازہ ترین