• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاؤن سینڈروم بچہ گناہ نہیں، جسے چُھپایا جائے

ڈاؤن سینڈروم آرگنائزیشن کی جانب سے ہر سال دنیا بَھر میں 21مارچ کو ’’ڈاؤن سینڈروم کا عالمی یوم‘‘منایا جاتا ہے۔ڈاؤن سینڈروم کو 1866ء میں Dr.John Langdon Haydon Down نے دریافت کیا، اسی لیے اس جینیاتی خرابی کو ڈاکٹر ڈاؤن ہی سے موسوم کردیا گیا۔ یہ دِن منانے کا مقصد جہاں ڈاؤن سینڈروم سے متعلق معلومات عام کرنا ہے، وہیں والدین میں یہ شعور بھی بیدار کرنا ہے کہ وہ ڈاؤن سینڈروم کے شکار، اپنے بچّوں کا باعثِ شرم نہ سمجھیں، بلکہ انھیں معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔

نجمہ آدم

ڈاؤن ‬سینڈروم،جسے‬ٹرائیسومی ‬21(Trisomy 21)بھی کہاجاتا ہے، ایک ایسی جینیاتی کیفیت ہے، جو شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے کو متاثر کرتی ہے۔اصل میں ہر بچّے کی تخیق کے وقت اس میں کروموسومز کی کُل تعداد46ہوتی ہے، جن میں سے نصف ماں اور نصف ہی باپ کی جانب سے منتقل ہوتے ہیں،لیکن اگر اس تعداد میں کسی سبب اضافہ ہوجائے(یعنی46 کی بجائے 47)، تو بچّہ پیدایشی طور پر ڈاؤن سینڈروم پیدا ہوگا‬۔ 

نارمل حالت میں ہر کروموسوم کے دو، دو جوڑے ہوتے ہیں، لیکن اگر 21ویں کروسوم میں دو کی بجائے تین جوڑے بن جائیں، تویہی زائد کروموسوم، جو طبّی اصطلاح میں ’’کروموسوم21‘‘ کہلاتا ہے،بچّے کی جسمانی ساخت کچھ مختلف اور نشوونما سُست کرنے کا ‬سبب ‬بن جاتا ‬ہے۔ ڈاؤن سینڈروم کی ایک وجہ بڑی عُمر میں حمل ٹھہرنا بھی ہے۔ ‬اسی ‬لیے ترقی یافتہ مُمالک میں‬35‬سال ‬سے زائد ‬عُمر ‬کے بعد حمل ٹھہرنے کی صورت میں، کروموسومز کی جانچ کے لیے ایک خاص ٹیسٹ ‬ تجویز کیا جاتا ہے۔

ڈاؤن سینڈروم کی علامات ہر ‬بچّے ‬میں ‬مختلف ہوسکتی ‬ہیں، جومعمولی ‬سے ‬لے ‬کر ‬شدید ‬بھی ‬ہوسکتی ‬ہیں۔تاہم، ‬ترچھی ‬آنکھیں، ‬پپوٹوں ‬کے ‬کونے ‬میں ‬واضح ‬جُھریاں، چھوٹے ‬یا ‬اندر ‬کی جانب کان، چھوٹا دہانہ، گول مٹول چہرہ، بڑی ‬زبان، ہتھیلی ‬پر ‬صرف ‬ایک ‬لکیر، چپٹی ‬ناک، پیدایش ‬کے ‬وقت ‬پٹّھوں ‬کے ‬تناؤ ‬میں ‬کمی، گردن ‬کی ‬پشت ‬پر ‬زائد ‬جِلد، چھوٹی ‬قدوقامت اور غیر ‬معمولی ‬ذہنی ‬اور ‬جسمانی ‬نشوونما وغیرہ عام علامات ہیں۔چوں کہ ڈاؤن ‬سینڈروم ‬بچّوں کا مدافعتی نظام کم زور ہوتا ہے، اسی لیے یہ مختلف امراض کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔

 مثلاً امراضِ قلب ،آنتوں ‬کا ‬غیر ‬معمولی ‬ہونا،آنکھوں ‬ اورسماعت ‬کے ‬مسائل،بار ‬بار ‬کانوں ‬میں ‬انفیکشن، کولھوں ‬کی ‬غیر ‬فطری ‬نشوونما، دورانِ ‬نیند سانس میں رکاوٹ کے سبب دَم گھٹنا، تھائی رائڈ ‬غدود ‬کا ‬درست ‬کام ‬نہ ‬کرنا،گردن ‬کے ‬جوڑوں ‬کا ‬عدم ‬استحکام اور انفیکشن میں مبتلا ہونا وغیرہ۔

 نیز، ان میں خون کے سرطان (Leukemia) کے بھی زائد امکانات پائے جاتے ہیں۔تاہم، یہ سرطان عام نہیں۔ علاوہ ازیں،‬الزائمر ‬اور ‬کم ‬عُمری میں ‬شریانیں ‬بھی ‬سخت ‬ہوسکتی ‬ہیں۔ اگر تشخیص کی بات کی جائے،تو یہ دورانِ حمل ایک اسکریننگ ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے ، جس کے لیے حمل کے10سے14ویں ہفتے کے درمیان ایک الٹراساؤنڈ کیا جاتا ہے، جس سے بچّے کی نشوونما کی جانچ کی جاسکتی ہے۔ 

اسی طرح12ویںسے16ویں ہفتے کے دوران خون کے ایک ٹیسٹ سے بھی تشخیص ممکن ہے، کیوں کہ ڈاؤن سینڈروم بچّوں کے بعض اعضاء کی ساخت دیگر بچّوں سے مختلف ہوتی ہے،تو یہ پیدایش کے فوری بعد باآسانی شناخت کرلیے جاتے ہیں۔نیز، ولادت کے بعد ان بچّوںکے بھی مختلف ٹیسٹس کیے جاتے ہیں، تاکہ جسمانی اعضاء کی کارکردگی جانچی جاسکے۔

 یادرکھیے، ایک بچّے میں جس قدر جلد ڈاؤن سینڈروم کی تشخیص ہوجائے، اچھا ہے کہ پھر اُسی قدر جلد ہیبی لیٹیشن کابھی آغاز ہوجاتا ہے اور یہ ہیبی لیٹیشن بچّے کی بہترین جسمانی و ذہنی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری بھی ہے۔ اس میں کئی اقسام کی تھراپیز شامل ہیں۔ مثلاً فزیو، آکو پیشنل، اسپیچ، ایموشنل اور بی ہیوئیرل تھراپیز وغیرہ۔ فزیو تھراپی میں تھراپسٹ نہ صرف بچّوں کے پٹّھوں کی مضبوطی کی مختلف ورزشیں کرواتے ہیں، بلکہ گراس موٹر اِسکلز پربھی خاص توجّہ دی جاتی ہے۔ مثلاً بچّوں کو چلنے کی تربیت دینا، کھیل کود، بھاگ دوڑ اور سیڑھیاں چڑھنا، اُترنا سکھایا جاتا ہے۔ اسی طرح آکو پینشل اور اسپیچ تھراپی بھی بے حد ضروری ہے۔یہی تھراپیز ڈاؤن سینڈروم بچّوں کے ہر میدان میں ایک کام یاب ،خودمختار اور کارآمد فرد بننے کا بہترین ذریعہ ہیں۔

 ان تھراپیزمیں بچّوں کو روزمرّہ کے معمولی نوعیت کےمثلاً کام کھانا پینا، کپڑے، جوتے پہننا، مُنہ ہاتھ دھونا، اپنی صفائی کا خیال رکھنا، بالوں میں کنگھی کرنا اور دانت برش کرنا سکھایا جاتا ہے۔ان ہی کے تحت تعلیمی سرگرمیوں میں پڑھنا لکھنا(جس میں درست انداز میں پینسل پکڑنا سکھانا بھی شامل ہے)، معمولی نوعیت کا حساب کتاب کرنا اور سوشل اِسکلز کو ابھارنا شامل ہے۔ یہ تھراپسٹ گراس موٹر اِسکلز اور فائن موٹر اِسکلز پربھی خاص توجّہ دیتے ہیں، تاکہ بچّوں کو ہردِن پیش آنے والی رکاوٹوں سے نمٹنے کے قابل بنایا جاسکے۔ چوں کہ ڈاؤن سینڈروم بچّوں میں قدرتی طور پر کچھ امورجلد سیکھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، تو اُن کی اِن ہی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اُنہیں مختلف مہارتوں کے ذریعے مستقبل میں معاشی طور پر بھی خودمختار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ڈاؤن سینڈروم بچّوں کے مخصوص تھراپسٹ نہ صرف بچّوں کو معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، بلکہ والدین کوبھی آموزش کے مختلف طریقوں سے آگاہ کرتےہیں۔عمومی طور پر ان بچّوں کے علاج کے لیےماہرین کی ایک ٹیم اجتماعی طور پرکام کرتی ہے، جن میں مختلف امراض کے معالجین، خصوصی تعلیم کے ماہرین اور تھراپسٹں وغیرہ شامل ہیں۔ 

اور یہ تمام شعبے ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں، جب کہ اسی ٹیم ورک کا سب سے اہم حصّہ والدین ہیں، جن کی مثبت اور بھرپور شرکت کے بغیر یہ ٹیم بالکل ادھوری ہے کہ ایک ڈاؤن سینڈروم بچّہ اپنا زیادہ تر وقت والدین کے ساتھ ہی گزارتا ہے اور اس آموزش کے عمل میں خاص طور پر والد کے کردار کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ والد کا محبّت وشفقت کا برتاؤ، بچّے کے ساتھ کھیل کود میں شامل ہونا، اُسے مختلف سماجی سرگرمیوں میں شامل رکھنا، پینٹنگ، تیراکی کے لیے اور فن گالاز وغیرہ میں ساتھ لے جانا بہتر نتائج دے سکتا ہے۔ 

نیز، والدین کا ان بچّوں کو معاشرے میں اپنے ساتھ ساتھ رکھنا اور ہر معاملے میں ان کی پزیرائی کرنا اور کروانا بھی بے حد ضروری ہے۔ بعض والدین ڈاؤن سینڈروم بچّوں کو تعلیم دلوانے سے گریز کرتے ہیں، جو قطعاً درست طرزِ عمل نہیں۔یاد رکھیے، ان بچّوں کے لیے اسکول میں پیشہ ورانہ نگرانی میں بنیادی تعلیم کا حصول باآسانی ممکن ہے، جس کے لیے اسکول میں کسی ریسورس ٹیچر کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، تاکہ بچّے کو تعلیمی سرگرمیاں انجام دینے میں کسی دقّت کاسامنا نہ ہو۔ 

علاوہ ازیں، والدین اپنے بچّوں کو تعلیم کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہنر بھی ضرور سکھائیں، تاکہ وہ کسی بھی طور معاشرے پر بوجھ ثابت نہ ہوں۔اس کے علاوہ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈاؤن سینڈروم سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی پروگرامز میں حصّہ لیں اور اس ضمن میں ہر طرح کی جدید معلومات سے اپ ڈیٹ رہیں۔ نیز، سوشل میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، خاص طور پر فیس بُک اور واٹس ایپ پر بنے گروپس میں شامل ہوکردیگر افراد کے مشوروں اور تجربوں سے بھی ضرور مستفید ہوں۔

(مضمون نگار، آکو پیشنل تھراپسٹ ہیں ۔گزشتہ 20برس میں مختلف اداروں مثلاً آغا خاں یونی ورسٹی اسپتال، لیاقت نیشنل اسپتال، ڈاؤیونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز وغیرہ میں خدمات انجام دے چکی ہیں( آغا خان اسپتال کے اکوپیشنل تھراپی ڈیپارٹمنٹ کی بانی ہیں)،امریکا اور ملایشیا سے تربیت یافتہ ہیں اور فی الوقت ساؤتھ سٹی اسپتال، میڈلائف کلینک اور ضیاء الدین یونی ورسٹی اسپتال سے بطور وزیٹنگ فیکلٹی اینڈ کنسلٹنٹ منسلک ہیں)

تازہ ترین