• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ڈاؤن سینڈروم بچہ گناہ نہیں، جسے چُھپایا جائے‘‘

’’ڈاؤن سینڈروم بچہ گناہ نہیں، جسے چُھپایا جائے‘‘

’’ماں بننا ہر عورت کی فطری خواہش ہوتی ہے۔ سو، شادی کے بندھن میں بندھتے ہی ماں بننے کا حسین خواب میری پلکوں کی جھالر پر بھی چہلیں کرنے لگا اور جب مَیں نے یہ خوش خبری سُنی کہ مَیں اُمید سے ہوں، تو دِل میں ایک نہایت حسین، نرم وگداز، اچھوتا سا احساس جاگ اُٹھا اور پھر جس روز یہ خواب حقیقت میں ڈھلا اور مَیں نے اپنے بطن سے جنم لینے والے بچّے کی پہلی بار آواز سُنی، تو میرا رُواں رُواں جیسے خوشی سے جھوم اُٹھا۔ ابھی سرشاری کی کیفیت طاری ہی تھی کہ ایک آواز سماعت سے ٹکرائی، ’’آپ کا بیٹا ڈاؤن سینڈروم ہے۔‘‘ یہ سُنتے ہی مجھے لگا، جیسے مَیں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں، ابھی آنکھ کُھلے گی اور سب نارمل ہوگا۔ 

مَیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے اطراف کا جائزہ لے رہی تھی۔ پھر احساس ہوا کہ یہ خواب نہیں، حقیقت ہے۔ تب مجھے لگا ، جیسے یک دَم ساری دنیا اندھیر ہوگئی ہو۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصّے میں دِل میں کئی سوالات جنم لینے لگے کہ ’’کہیں یہ میری کسی غلطی کی تو سزا نہیں، کیا معاشرہ میرے بچّے کو قبول کرلے گا، سُسرال والوں کا ردِّعمل کیا ہوگا؟ اور جب رشتے دار، دوست احباب مبارک باد دینے آئیں گے، تو کیا مَیں ان کی استفہامیہ نگاہوں، چُبھتے سوالات کا مقابلہ کرسکوں گی۔

 میرے بعد میرے بچّے کا کیا ہوگا…؟؟ یہی سب سوچتے پیشانی پر پسینے کے ننّھے ننّھے قطرے اُبھر آئے، بے چارگی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی، لیکن جوں ہی اپنے لختِ جگر پر نظر پڑی، تو مَبہوت سی ہوگئی۔ اس کے نرم وملائم، گول مٹول سے چہرے پر بکھرے نور نے تو جیسے میری ساری پریشانیاں اپنے اندر سمو کر مجھے جینے اور لوگوں کی سب باتیں برداشت کرنے کا حوصلہ دے دیا۔ پھر سوچا، مَیں کیوں اپنے اُس خواب کو خوف کی نذر کردوں، جس کی تکمیل کے لیے مَیں نے پورے 9ماہ انتظار کیا اور زچگی کے سخت تکلیف دہ مرحلے سے گزر کر اسے جنم دیا۔

مجھے تو اپنے رب کا شُکر ادا کرناچاہیے، جس نے مجھے ماں کے درجے پرفائز کرکے میرے قدموں تلے بھی جنّت کاسبب پیدا کردیا ہے۔ فوراً ہی آنسو پونچھے اور مُسکراتے چہرے سے اس ننّھے وجود کو ،جو میرے ہی وجود کا ایک حصّہ تھا، بانہوں میں بَھر لیا۔ ‘‘یہ خیالات، جذبات و احساسات ڈاؤن سینڈروم کے شکار ایک بچّے کی والدہ کے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں عموماً ڈاؤن سینڈروم بچّوں کو تو حیرت سے دیکھا ہی جاتا ہے، اس کے ساتھ ہی والدین کوبھی درشت رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یادرکھیے، ڈاؤن سینڈروم محض ایک جینیاتی ڈس آرڈر ہے، جس میں نہ تو ماں کا کوئی قصور ہوتا ہے اور نہ ہی باپ کا۔ بس، قدرتی طور پر حمل ٹھہرتے ہوئے محض ایک کروموسوم کے اضافے کے سبب یہ بچّے عام بچّوں سے مختلف پیدا ہوتے ہیں۔ اور اس جینیاتی خرابی کی درستی کسی صورت ممکن نہیں۔

 ایک تحقیق کے مطابق ہر700بچّوں میں سے ایک بچّہ، ڈاؤن سینڈروم پیدا ہوسکتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان بچّوں کو قبول نہیں کرتا۔ اس ضمن میں اسپیشل ایجوکیشن کی فیلڈ سے وابستہ، ڈاکٹر آمنہ کہتی ہیں، ’’ڈاؤن سینڈروم بچّے ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی اہم حصّہ ہیں۔ اگر ان کو مناسب تربیت اور رہنمائی فراہم کی جائے، تو وہ بھی معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ ڈاؤن سینڈروم بچّے بھی عام بچّوں ہی کی طرح قدرت کا اَن مول تحفہ ہیں، انہیں معاشرے کی جانب سے قبولیت کی سندنہ ملنے پر گھروں میں قید کرکے رکھنا ہرگز درست نہیں۔‘‘ یاد رکھیے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سےستّرماؤں سے زیادہ محبّت کرتا ہے، لہٰذا لوگوں کی ایسی دقیانوسی اور واہیات سوچ اور باتوں پرکہ ’’یہ بچّے کسی غلطی کی سزا ہیں، ان بچّوں کوعام بچّوں سے دور رکھنا چاہیے‘‘ ہرگز دھیان نہ دیا جائے۔ یہ بچّے نہ کسی غلطی کی سزا ہیں، نہ خود کوئی گناہ بلکہ یہ تو وہ معصوم اور پاکیزہ روحیں ہیں، جن کے لیے قدرت ایسے ہی لوگوں کا انتخاب کرتی ہے، جو اُس کی اس عنایت کو بخوشی قبول کرسکیں۔ 

اور یہی وہ بچّے ہیں، جن کی بہترین تعلیم وتربیت کے سبب والدین دین ودنیا دونوں میں سُرخ رُو ہوسکتے ہیں کہ یہ بچّے روزِحشر خود اپنے والدین کا ہاتھ پکڑ کرجنّت میں لے جائیں گے۔ اور بحیثیت مسلمان، ہم سب پربھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان بچّوں اور اُن کے والدین کو کسی بھی طور بے چارگی کا احساس نہ دلائیں۔ یہ بچّے انتہائی معصوم ہونے کے ساتھ تخلیقی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ نیز، معاشرتی شر انگیزیوں سے بھی کوسوں دُور رہتے ہیں۔ جھوٹ، مکرو فریب، لالچ، حسد، کینہ پروری اور اس جیسے کئی منفی جذبات کا انہیں سرے سےپتا ہی نہیں ہوتا۔ 

سو، انہیں حیرت کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ان سے پیار کریں۔ یہ والدین ہی کی نہیں، سب کی محبّت، چاہت اور توجّہ کے مستحق ہیں۔ نیز، چوں کہ ہمارے مُلک میں ڈاؤن سینڈروم کے شکار ہزاروں بچّوں کو بنیادی سہولتیں تک میسّر نہیں، تو حکومت، نجی سیکٹرز اور معاشرے کے متموّل اور بااثر افراد پر یہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مُلک بَھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف ڈاؤن سینڈروم سینٹرز کے قیام پر توجّہ دیں، جہاں ان بچّوں کو ذہنی اور جسمانی نشوونما کی تمام تر سہولتیں ایک ہی چھت تلے فراہم ہوں۔

(مضمون نگار، کراچی یونی ورسٹی سے اسپیشل ایجوکیشن میں ماسٹرز ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے اسپیشل ایجوکیٹر، ریمڈئیل تھراپسٹ اور پیرنٹ ٹیچر فیسی لیٹیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں)

تازہ ترین