• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوموں کی طرح سیاسی جماعتوں کی تقدیر بھی دورِ ابتلا میں میسر قیادت کی مرہونِ منت ہوا کرتی ہے۔ اچھی، دور اندیش اور زیرک قیادت بہم ہو تو سیاسی جماعتیں عوام کے دِل فتح کر لیتی ہیں۔ ایسا نہ ہو تو امتدادِ زمانہ کی دھول میں معدوم ہو جایا کرتی ہیں۔ دور کیوں جائیں خود ہمارے ہاں قیوم لیگ اور تحریک ِ استقلال کی مثالیں موجود ہیں جو اپنے وقت میں جمہوری جدوجہد کا استعارہ کہلائیں لیکن آج بہت کم لوگ ہوں گے جو ان سیاسی جماعتوں کے بارے میں آگاہ ہوں گے۔ پاکستان اس وقت جس ابتری و انتشار اور سیاسی اخلاقیات کی تنزلی کا شکار ہے، وہ پاکستان کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔ حصولِ اقتدار کے لئے ایسی دھڑے بندیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ،جن کا تصور بھی محال تھا۔ چنانچہ بیشتر لوگ حالیہ تغیرات کو ’’اشاروں‘‘ کا کھیل قرار دے کر اس عمل کو جمہوریت کے لئے خطرناک کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کر رہے۔ اس حوالے سے ان کا استدلال بلوچستان اسمبلی میں ہونے والا عمل اور سینیٹ کے انتخابات ہیں۔ مذکورہ معاملات کے بارے میں مبصرین کا یہ کہنا بھی یکسر جھٹلانا ممکن نہیں کہ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔ بظاہر پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں سب سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم ہیں لیکن مسلم لیگ ن شاکی ہے کہ اسے جوڈیشل ایکٹو ازم کے ذریعے مقتدر قوتیں دیوار کے ساتھ لگانے کی خواہاں ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے تحفظات اپنی جگہ لیکن یہ کوئی احسن امر نہیں کہ وہ ان کا اظہار کرتے ہوئے بسا اوقات تمام حدود و قیود بھول جاتی ہے اور اپنے لئے مزید مشکلات اکٹھی کر لیتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر پارٹی کے بعض سینئر کارکن پارٹی قیادت سے نالاں رہے، ان کارکنوں کا نقطہ نظر بھی درست تھا کہ جب حکومت ان کی ہے ،ہر کام ان کی مرضی سے ہو رہا ہے تو اداروں سے محاذ آرائی کی کیا منطق ہے؟ یہ بھی بجا ہے کہ اپنے انہی خیالات کے باعث یہ سینئر کارکن ناراض اور غیرفعال رہے۔ خاص طور پر چوہدری نثار، جو جے آئی ٹی کی سماعت اور اس کے بعد بھی سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو مبینہ خوشامدیوں سے محفوظ رہنے کا مشورہ دیتے رہے، دلیل وہی تھی کہ اگر حکومت اپنی ہے تو اداروں سے الجھنا محض مشکلات میں ہی اضافہ کرے گا، ریلیف کی توقع عبث ہے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ تھا کہ اگر پارٹی مشاورت سے معاملات پارلیمنٹ میں ہی حل کر لئے جاتے اور حکومت معاملات، خاص طور پر پاناما لیکس کا معاملہ عدالت میں نہ لے جاتی تو حالات خرابی ٔ بسیار کی طرف نہ جاتے۔ دریں صورت بعض اہم مراحل کے وقت وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز متحرک نظر نہ آئے تو یہ باتیں سامنے آئیں کہ شریف برادران اور ان کی آئندہ نسل میں اختلافات سنگین رخ اختیار کر گئے ہیں۔ اسی دوران عدلیہ کی جانب سے میاں نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کے بعد مسلم لیگ کی صدارت کے بھی نااہل قرار پائےجس سے پارٹی کو شدید دھچکا لگا۔ اس صورتحال میں پارٹی کو متحد رکھنے اور آئندہ انتخابات کی تیاری کے لئے تگ و دو شروع ہوئی، میاں شہباز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت سونپنے کا فیصلہ ہوا جبکہ میاں محمد نواز شریف کو پارٹی کا تاحیات قائد منتخب کیا گیا۔ موجودہ حالات میں اسے بہترین فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے ورنہ پارٹی کے بکھر کر رہ جانے کا احتمال بعید از قیاس نہ تھا۔ سیاسی پارٹیاں جمہوریت کی اساس ہیں، ان کا بکھرنا یا معدوم ہونا جمہوریت کے لئے سم قاتل سے کم نہیں ہوتا۔ الغرض مسلم لیگ ن کے فیصلے پر مختلف لوگوں کی آرا مختلف ہو سکتی ہیں تاہم پارٹی کے اعتبار سے یہ ایک احسن فیصلہ اور میاں شہباز شریف کے لئے ایک چیلنج ہے۔ وہ ایک جہاندیدہ اور متحرک شخصیت ہیں، سیاست کے نشیب و فراز کو خوب سمجھتے ہیں، ناممکنات کو ممکن بنانے کے کھیل ’’سیاست ‘‘میں وہ اس لئے بھی زیادہ کامیاب رہیں گے کہ ان کا رویہ بے لچک نہیں ہے اور وہ مفاہمت کا ہنری بھی بطریق احسن استعمال کرنا جانتے ہیں۔ اپنی اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے انہیں البتہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، انہیں ہی نہیں سب سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی اور اخلاقی اقدار کا خیال رکھنا ہو گا، بصورت دیگر حالات ان کی خواہشات کے برعکس بھی ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین