• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند روز کے دوران سندھ کے مختلف اضلاع میںخسرے کی وبا کے شدت اختیار کرنے سے کئی بچوں کی اموات حکومتی سطح پر محکمہ صحت سے برتی جانے والی مسلسل غفلت کی طرف نشاندہی کرتی ہیں۔اگرچہ تمام صوبوں میں ہی شعبہ صحت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ناقص خوراک او ر ماحولیاتی آلودگی کے باعث ملک میں وبائی امراض پھیلنے کی جو لہر چل پڑی ہے اس سےنمٹنے میں ہیلتھ سیکٹر کی ناکامی عیاں ہوتی ہے۔لیکن اس ضمن میں اندرون سندھ کے حالات نہایت دگرگوں ہیں ایک جانب تھر میں غذائی قلت و امراض سے بچے مررہے ہیں اوردیگر اضلاع بھی مختلف بیماریوں کی لپیٹ میں ہیں تو دوسری جانب انسداد خسرہ مہم میں عملے کی غفلت سے تین بچے موت کا شکار ہوگئےجو نہایت تشویشناک امر ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ خسرےکی وبا سے صرف خیر پور میں گزشتہ ایک ماہ میں درجن سے زائد بچے موت کے منہ میں چلے گئےجبکہ جیکب آباد میں دو بچوں کے جاں بحق اور پندرہ سو سے زائد کے متاثر ہونے کی اطلاعات آئی ہیں۔ مزید اموات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔دیکھا جائے تو خسرہ کبھی جان لیوا مرض نہیں رہا، اس میں اتنی بڑی تعداد میں اموات ہونا یقیناً لمحہ فکریہ ہے ۔ اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے۔انہی سطور میں بارہا ارباب اختیار سے ملک بھر میں صحت کی ایمرجنسی کے نفا ذ کی استدعا کی جاتی رہی ہے لیکن اس باب میں کوئی سنجیدہ اور عملی پیشرفت ہنوز عنقا ہے۔عوام کو بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی ریا ست کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس لئے عام آدمی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آخر کب وہ صحت کی موثر سہولتوں سے مستفید ہوسکے گا ؟اب جبکہ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد شعبہ صحت صوبوں کے زیر انتظام آگیا ہے ، تمام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں اس شعبے میں بہتری کیلئے موثر حکمت عملی اپناتے ہوئے انقلابی تبدیلی لائیں۔

تازہ ترین