• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے ہماری آرزو ہوتی تھی کہ کوئی دریچہ کھل جائے۔ ہم باہر کا منظر دیکھ سکیں۔
یہ ان دِنوں کی بات ہے جب ہم گھر سے باہر نہیں جاسکتے تھے،چھت پر جانا بھی منع تھا، لیکن اب جب ہم آزاد ہوچکے ہیں، گھر سے باہر بھی جاسکتے ہیں،کھلی چھت پر جانا بھی ممنوع نہیں ہے، ہم اب بھی منظر ایک کھڑکی سے ہی دیکھتے ہیں،اسی کھڑکی بھر نظارے پر ہم تبصرے اور تجزئیے شروع کردیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارا نظارہ مکمل نہیں ہے اس لئے تبصرہ اور تجزیہ بھی معتبر نہیں ہوسکتا۔ زحمت نہیں کرتے، چھت پر نہیں جاتے، گھر سے باہر نہیں نکلتے،کھڑکیاں ہمارا مقدر بن گئی ہیں، ٹیلی وژن کی کھڑکی، انٹرنیٹ کی کھڑکی،سوشل میڈیا کی کھڑکیاں۔
پوری خبر نہیں پڑھتے،صرف سرخیاں دیکھ کر خوش یا دُکھی ہوجاتے ہیں۔ ٹی وی پر ٹِکر (پٹی) دیکھ کر پورے پورے بیان جاری کردیتے ہیں، امکانات سے بھرپور دنیا ہماری جولائیوں کی منتظر ہے۔
مگر ہم کھڑکیوں سے چپکے بیٹھے ہیں۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
آج میں ان مظلوم پاکستانیوں کی بات کرنا چاہتا ہوں جو الزامات ثابت ہونے سے پہلے رسوا ہوجاتے ہیں۔ برسوں ہم نے احتساب کے لئے، آزادیٔ عدلیہ کے لئےجدوجہد کی۔ میڈیا پرپابندیاں ختم کرانے کے لئے قربانیاں دیں۔ اب احتساب ہورہا ہے۔ عدالتیں سرگرم ہیں۔ میڈیا آزاد ہے۔ لیکن کیا ہورہا ہے۔ سیاستدان رسوا ہورہے ہیں۔ اعلیٰ سرکاری افسر بدنام ہورہے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے۔ تحقیق کئے بیان دے دیئے جاتے ہیں۔ کردار مسخ کردیا جاتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہر سیاسی رہنما کا ایک خاندان ہوتا ہے۔ سرکاری افسر کا اپنا کنبہ ہوتا ہے۔ اپنا حلقۂ احباب ہوتا ہے۔ وہاں اس پر کیا گزرتی ہوگی۔
ہم خوش ہوئے تھے جب اعلیٰ اختیاراتی ادارہ نیب قائم کیا گیا، اب جب اس ادارے نے سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کی گرفتاریاں شروع کی ہیں تو ہر ایک پر اربوں روپے کی خرد برد کے الزامات کی تشہیر کی جاتی ہے،ایک بار تو ان سنگین الزامات سے ان گرفتار شدگان کے چہروں پر کالک مل دی جاتی ہے، وہ اپنے خاندان میں ناپسندیدہ ہوجاتے ہیں، بہت سے رشتے ہوتے ہوتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ نیب ہو یا پولیس ایسے ایسے تفصیلی بیانات جاری کئے جاتے ہیں کسی پر 80 ارب،کسی پر 40 ارب کے الزامات، یہ سب کچھ ابھی تفتیش۔ تحقیقات اور عدالت میں ثابت کرنے کے مرحلے سے گزرنا ہوتے ہیں۔ لیکن میڈیا پر بار بار کی تشہیر سے وہ اپنے حلقۂ احباب میں ،عوام کی نظروں میں خاندان کی نگاہوں میں تو گناہ گار ٹھہر جاتے ہیں۔ ان میں بہت کم مقدمات فیصلوں تک پہنچ سکے ہیں۔
ملک میں کرپشن اتنی ہوچکی ہے،معیشت اتنی بدحال ہوچکی،عوام سمجھتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی تو ذمّہ دار ہے۔ جب کوئی ایسی گرفتاری ہوتی ہے تو سب لوگ یقین کرلیتے ہیں کہ اس ملزم نے ضرور یہ سب کچھ کیا ہوگا۔ بہت سے تجزیہ نگار۔ کالم نویس اور سوشل میڈیا ایسے الزام زدگان کے لئے اور بھی خوفناک کہانیاں لے آتے ہیں۔
الزام علیہ اپنا جواب دعویٰ داخل کرے یا ویسے بیان دے تو اسے اتنی نمایاں جگہ نہیں ملتی ہے۔ گزشتہ 70سال کے دوران ہم نے اپنے سیاسی رہنمائوں۔ اپنی فوج۔ اپنی نوکر شاہی۔ اپنی عدالتوں۔ اپنے علماء۔ اپنے دانشوروں کے بارے میں ایسے ایسے الزامات عائد کئے ہیں کہ ان اداروں سے لوگوں کا اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ لکھتے وقت تو پھر بھی بہت احتیاط کی جاسکتی ہے۔ جملے حذف بھی کئے جاسکتے ہیں لیکن الیکٹرانک میڈیا پر تو احتیاط کا کلچر ممکن ہی نہیں ہے۔ زبان سے نکلا حرف۔ کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا۔
ایسے بہت سے سرکاری افسر ضمانتوں پر رہا ہونے کے بعد اپنے ان عہدوں پر کام بھی کررہے ہوتے ہیں۔ عدالتوں میں پیشیاں بھی بھگت رہے ہوتے ہیں۔ ان دنوں ان کی اتھارٹی مفلوج ہوچکی ہوتی ہے۔ اپنے ماتحتوں کی نظر میں وہ گر چکے ہوتے ہیں۔
آپ یہ تصور کریں کہ ایک ایس ایچ او ایک پورے علاقے میں امن وامان کا ذمّہ دار ہوتا ہے کتنے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں۔ املاک کی حفاظت اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ لیکن پولیس کے خلاف کئی دہائیوں سے جو تاثر زبانی۔ تحریری اور تقریری طور پر پھیلایا جاتا ہے اس کے بعد ایس ایچ او ایک قابل اعتبار عہدہ نہیں بلکہ ایک بدنام کردار بنادیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہم اس سے یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے میں معاملات کو معمول پر رکھے۔ بہت سے محکموں کے سربراہ، سیکریٹری، ڈائریکٹر جنرل بھی ہمارے اس سلوک کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ تو کوئی بھی مان ہی نہیں سکتا کہ افسر 100فیصد کرپٹ ہیں۔ نیب اور دیگر احتسابی اداروں میں بھی یہی افسران ذمّہ داریاں نبھاتے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی شفافیت کا تاثر نہیں ہوتا ۔ اس لئے ان کے قائم کردہ مقدمات، استغاثے سب کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوتے۔
عدالتوں میں مقدمات کی سماعتوں کی رفتار اتنی سست ہے کہ کئی نسلیں ان مقدمات کا سامنا کرتی ہیں۔ مقدمات قائم ہوتے وقت، ملزم کی گرفتاری کے وقت اتنی تشہیر کی جاتی ہے کہ وہ بہت سی نگاہوں میں مجرم ہوجاتا ہے۔ برسوں بعد جب وہ بَری ہوتا ہے تو اس کی عزت واپس نہیں آسکتی۔ بعض اپنی عزت کی بحالی سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوچکے ہوتے ہیں۔
اب جب عدالتیں آزاد ہیں،میڈیا آزاد ہے، سوشل میڈیا مادر پدر آزاد ہے،معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے، اپنے محبوب ہیرو پر الزامات ہوں تو ہم مانتے نہیں ہیں لیکن اگر ہمارے مخالف کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہو تو ہم اس کو اور بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
ایسے رویّے معاشرے کو انارکی کی طرف لے جاتے ہیں۔ جب ہم سرکاری عہدیداروں، افسروں کی اتھارٹی ہی کمزور کردیں گے تو سرکار کیسے چلے گی۔ بہت سے افسر عدالتوں میں پیشی کے بعد جب دفتر آتے ہیں تو عدالت میں اپنی تضحیک کا انتقام سائلوں سے لیتے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی یا میڈیا کی آزادی کا یہ مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ جس کی چاہے پگڑی اچھال دی جائے۔ کسی جرم کے ثابت ہونے سے پہلے اس کو سزا کیسے دی جاسکتی ہے۔ بڑی عدالتوں کے جج بڑے افسروں کو لتاڑتے ہیں تو ذیلی عدالتوں میں ذیلی افسروں سے یہی سلوک ہوتا ہے۔
اخبار میں تکرار سے گریز کیا جاتا تھا، اشاعت مکرّر نہیں ہوتی تھی،الیکٹرانک میڈیا کی ٹیکنیکل نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ یہاں نشر مکرّر،معمول کی ضرورت ہے۔ اس لئےالزامات کی تشہیر بار بار ہوتی ہے۔ متعلقہ ملزمان بار بار رسوا ہوتے ہیں۔
یہ سوچنے کا لمحہ ہے،میڈیا اور عدلیہ خود اس پر غور کرے کہ پگڑیاں اچھالنے، کردار پر سیاہی پھینکنے،جوتا مارنے سے کیا انصاف اور آزادیٔ اظہار کا حق ادا ہورہا ہے۔ بااصول سرکاری افسر بھی خوف زدہ رہتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی اپنے بچوں کو سرکاری ملازمتوں میں جانے سے روک رہے ہیں۔ الزامات اپنی حقیقت کھو رہے ہیں۔ کرپشن محض تہمت بن کر رہ گئی ہے۔ حقائق تشہیر کی گود میں گم ہورہے ہیں۔ الزامات ثابت ہونے سے پہلے کسی سے بھی مجرم جیسا سلوک کرنا۔ مہذب اور آزاد معاشروں کا شیوہ نہیں ہے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین