• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان سے لے کر آج تک وطنِ عزیز میں جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ اس مملکت کی 70سالہ زندگی کے نصف دور پر تو براہ راست مارشل لا نافذ رہے جبکہ بقیہ حصہ جسے ہم دورِ جمہوریت کہتے ہیں اس میں بھی اصل طاقت پارلیمنٹ یا منتخب جمہوری حکومت سے ماورا ہی رہی۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں موجودہ حکومت ہی کا جائزہ لے لیا جائے کہنے کو یہ منتخب جمہوری حکومت ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ اس کی شہ رگ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
آج اپوزیشن کی جو بڑی سیاسی پارٹی اس حکومت کی مخالفت میں پیش پیش ہے ابھی کل کی بات ہے اس جمہوری پارٹی کے منتخب وزیراعظم کو جب اس کے عہدے سے ہٹایا گیا تو اپنے پہلے انٹرویو میں انہوں نے صاف صاف اعتراف کیا کہ میں تو صرف نام کا وزیر اعظم تھا اصل اختیارات تو کسی اور کے پاس تھے۔ بیچارے گیلانی کی کیا حیثیت تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی بڑی رہنما 88ء میں تمام تر مخالفتوں کے باوجود وسیع تر عوامی حمایت کی بدولت جب منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئیں تو حلف اٹھاتے ہی انہیں مجبور کر دیا گیا ۔ پھر 88ء کے بعد 90ء میں ہی اُن کی حکومت کو جس طرح چلتا کیا گیا اُس سے وطنِ عزیز میں جمہوریت کی بے بسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارے جو مدبرین اور سیاسی زعما ان حقائق کا ادراک رکھتے ہیں وہ بلوچستان کے نام پر سینیٹ چیئرمین کے لیے چلائی جانے والی گیم سے کیسے بے خبر رہ سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ منتخب جمہوری حکومتوں کو اپنے مینڈیٹ کی مدت پوری کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے ۔ پھر نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ عین اُس وقت کیوں دیا جا رہا تھا جب سینیٹ انتخاب کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری کیے جا چکے تھے۔ ان امیدواران کا کیا قصور تھا کہ انہیں پارٹی نشان سے محروم کرتے ہوئے آزاد بنا دیا گیا کیونکہ چند دنوں بعد آزادوں سے ہی کام چلایا جانا تھا۔
پاکستانی سیاست کی کتنی بے بسی ہے کہ پی پی اور ن لیگ جیسی بڑی پارٹیوں میں سے کسی کو ایوانِ بالا کی سربراہی کے لائق خیال نہیں کیا گیا اس سے بڑی سیاسی بلوغت و وسعت کیا ہو گی کہ سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے اپوزیشن پارٹی کے رہنما رضا ربانی کے امیدوار بنائے جانے کی صورت میں اپنی حمایت کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی میں ربانی صاحب کی خدمات کا معترف کون نہیں ہے؟ کوئی چیز اُن کی جیت کے آڑے نہیں آرہی تھی مگر اس کہنہ مشق پارلیمنٹرین کو مسترد کرتے ہوئے آخر کیا مجبوری تھی کہ ایک ایسے غیر معروف شخص کو منتخب کیا گیا جس کی اپنی کوئی سیاسی پارٹی ہے نہ تجربہ نہ سیاسی پہچان۔ ہمیں ن لیگ سے بھی شکایت ہے کہ وہ اپنے قائد کے بیانیے کی مناسبت سے اپنا امیدوار اگر رضا ربانی کو نہیں بنوا سکے تھے تو بلوچستان کی معتبر شخصیت حاصل بزنجو کو لایا جا سکتا تھا اگر شکست ہی دلوانی تھی تو کم ازکم اپنی بہتر ساکھ کے لیے پرویز رشید صاحب کو کھڑا کیا جا سکتا تھا۔
کس سیاستدان کو معلوم نہیں کہ یہاں جمہوریت اور آمریت کی آویزش بہت پرانی ہے تو ذمہ دار جمہوری قیادت کی اولین ترجیح کیا یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تمام تر جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلیں جو روزِ اول سے ایمپائر کی انگلیوں کے اشاروں پر چل رہے ہیں وہ سیاستدان ہیں نہ اُن کی پارٹی سیاسی جماعت ہے وہ تو میدانِ سیاست کے پریشر گروپس ہیں مگر جو خود کو واقعی سیاسی سمجھتے ہیں اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ محض مفاد پرستی کی رو میں بہہ جانے کے بجائے اصولی سیاست کرتے ہوئے آئینی جمہوری اور پارلیمانی تقاضوں کی پاسداری کریں بلوچستان کے رہنما محمود خان اچکزئی کی آواز کو سمجھا جائے جو کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے اس نے بربادی پاکستان کی بنیاد ڈال دی ہے یہ ملک کے چہرے پر دھبہ ہے ۔ اسی سے ملتے جلتے الفاظ نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو نے بھی سینیٹ کے فلور پر کہے ہیں ۔ نواز شریف نے سابقہ 70 سالوں کا جائزہ لیتے ہوئے اگلے 70سالوں کو بہتر بنانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا کوئی ذاتی مفاد یا ایجنڈا نہیں صرف اور صرف قوم کی تقدیر بدلنا میرا ایجنڈا ہے۔ سابق وزیراعظم نے اپنی سیاست اور حکمرانی میں جو غلطیاں کی ہیں ہمیں اُن سے انکار نہیں ہے لیکن آج اُن کی مخالفت میں ماورائی قوتوں کے آلہ کاربن کر جو کچھ کیا جا رہا ہے اس سے وطنِ عزیز میں عوامی اقتدار اعلیٰ یا سویلین اتھارٹی کو جو نقصان پہنچ رہا ہے آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والے تمام اہل سیاست و دانش کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے بلاشبہ جمہوری تڑپ رکھنے والوں کو نقصان پہنچا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کل کو اگر قومی اسمبلی دوتہائی اکثریت سے پاس کرتے ہوئے کوئی مسودہ یہاں بھیجتی ہے تو چیئرمین اُسے پاس نہیں ہونے دے گا وہ تھوڑا بہت التوا تو کر سکتا ہے مگر عددی اکثریت سے پاس ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ڈال سکتا۔ عددی حیثیت سے اب بھی سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ ن ہی ہے اور اب کے وہ اپنی سابقہ حیثیت سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہے ۔ کل کو کسی بھی ایشو پر اگر ن لیگ اپنے ساتھ مطلوبہ اتحادی جوڑلے تو بل پاس کروانے میں اُسے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کے وہ کارکنان جو اس الیکشن کو اپنی جیت قرار دے رہے ہیں حقائق کی نظروں سے دیکھا جائے تو اندرونی خوشی انہیں بھی نہیں ہے ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے انتخابات میں بھی کہیں اُن کے ساتھ ایسا ہی ہاتھ نہ ہو جائے۔ آئین اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی کامیابی محض یہ نہیں ہو گی کہ وہ وزیراعظم گیلانی کے متذکرہ بالا الفاظ کی طرح محض عہدے حاصل کر لیں جبکہ پارلیمنٹ اپنی اتھارٹی اور طاقت سے محروم رہے۔ سینیٹ چیئرمین کا انتخابی معرکہ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کا کوئی آخری معرکہ نہیں تھا ابھی اصل مقاماتِ آہ و فغاں سر پر ہیں جمہوری طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی تیاری کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ تمامتر سازشی تھیوریوں کو ناکام بناتے ہوئے وہ ووٹ کے تقدس و عوامی حاکمیت کے نعرے کو 2018کے انتخابات میں منوائیں۔ عوامی شعور کی بیداری اس کے لیے شرط اولین ہے اور اگر عوامی بالادستی کا اصول نہ منوایا جا سکا تو پھر جو دھینگا مشتی ہو گی اس کی ابتدائی جھلکیاں ابھی سے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین