• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غلطی میری تھی مجھے اچھی طرح ایڈریس یاد نہیں تھا لیکن مجھے یہ زعم تھا کہ میں اس ایڈریس پر کئی مرتبہ جاچکا ہوںاس لئے آسانی سے ٹیکسی ڈرائیور کو مطلوبہ منزل تک لے جائوںگا۔چونکہ بات ذرا پرانی ہے اس لیے اس وقت ایڈریس تک پہنچنے میں تھوڑی دشواری ہواکرتی تھی اور میں انگلینڈ کی بات کررہا ہوں۔میں ٹیکسی ڈرائیورکو اپنے دعوے کے باوجود رہنمائی نہ دے سکنے کی وجہ سے شرمندگی کا شکارتھا اور بے چارا ٹیکسی ڈرائیور ہر طرح سے مجھے اپنی منزل پر پہنچانے کے لیے تگ ودو کررہا تھا۔آخر کار تھک ہار کر میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا مجھے اسی ٹرین اسٹیشن کے پاس اتار دوں جہاں سے ہم اس وقت گزررہے تھے۔ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے اتار دیا اور میں اس خوف میں مبتلا تھا کہ نہ صرف اترتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور مجھے باتیں سنائے گا بلکہ مجھ سے اچھی بھلی رقم بطورکرایہ بھی طلب کرے گا لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے نہ صرف معذرت کی کہ وہ مجھے میری منزل تک پہنچانے میں ناکام رہا بلکہ ڈرائیور نے کرایہ لینے سے بھی انکارکردیا اور مجھ سے یہ تسلی بھی چاہی کہ کہیں میں پولیس میں اس کی شکایت تونہیں کروںگا کہ ٹیکسی ڈرائیورمجھے منزل کی بجائے کہیں اور اتار گیا ہے۔چونکہ غلطی میری تھی اس لیے میںنے ڈرائیور کو یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں بلکہ آپ کا بہت بہت شکریہ۔آپ جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک میں چلے جائیں وہاں آپ کو سب سے زیادہ ہمدرد اورگائیڈ ٹیکسی والا ملے گا اور آپ جتنے بھی ہمارے جیسے ممالک میں چلے جائیں وہ ٹیکسی ڈرائیور آپ کو اجنبی سمجھ کرخوب لوٹے گا اس کی وجہ ملکی کلچر بھی ہوتاہے لیکن اس کی بڑی وجہ اس ملک کی حکومت ہوتی ہے جس نے انہیں بے لگام چھوڑ رکھا ہوتاہے۔آپ کسی شاہراہ پر کھڑے ہوجائیں اور عام پیلی ٹیکسی والے سے اپنی منزل تک جانے کی بات کریں وہ آپ کوایسا کرایہ بتائے گا کہ آپ کے اوسان خطا ہوجائیںگے۔اور وہ متوسط لوگ جو اپنی فیملی کے لیے ٹیکسی پر سفر کرناچاہ رہے ہوتے ہیں۔چاہے وہ آئوٹنگ کے لیے کسی پارک یا تفریحی مقام پر جارہے ہوں ،ٹیکسی والا ہی اپنے کرائے سے ان کی جان نکال لیتا تھا۔لیکن اس کے برعکس پاکستان میں کچھ نجی کمپنیوں نے ٹیکسی سروس کا آغاز کیا ہے، جس میں لوگوں کے لیے کچھ آسانی پیدا ہوئی ہے ،ایک تو گاڑیاں بہتر حالت میں ہیں دوسرا ڈرائیور حضرات بھی پڑھے لکھے ہیں اورسفر کے دوران ان کے رویئے بھی اچھے ہوتے ہیں۔لیکن مجھے اس بات کاافسوس ہے کہ حکومت نے اس سروس کو بہتر بنانے کے لئے اپنا کوئی کردارادا نہیں کیا نہ انہیں ریگولرائز کیا ہے۔نہ ہی نئی گاڑیوں کے نوجوان مالکان کے تحفظ کے لیے کوئی پالیسی متعارف کرائی ہے جو بے روزگاری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس نجی سروس سے منسلک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دویاتین ایسے حادثات ہوچکے ہیں جن میں ڈرائیورحضرات کی جان چلی گئی ہے اور نامعلوم ڈاکو قتل کرکے صر ف را ولپنڈی اسلام آباد میں دو قیمتی جانیںبھی چھین چکے ہیں ۔حکومت اس ٹیکسی سروس کو بہتر اورمحفوظ بنانے کے لئے فوری طور پر کچھ اقدامات کرے جس میں ٹیکس اورسیکورٹی کے معاملات شا مل ہیں، ان گاڑیوں میں سی سی ٹی وی کیمرے ہوناچاہیں۔گاڑیوں کی انشورنس ہونا چاہیے تاکہ گاڑی چھن جانے کے خوف سے ڈرائیور اپنی زندگی کو دائو پر نہ لگائے۔سواری کو اٹھانے سے پہلے صرف موبائل نمبر نہیں بلکہ قومی شناختی کارڈ کا نمبر بھی ضروری ہوناچاہیے جوموبائل نمبر کے ساتھ ویری فائی ہوسکے۔گاڑی کیپٹن یعنی ڈرائیورز کیلئے قواعد وضوابط بنائے جائیں جس کے تحت وہ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ضلعی حکومتیں اس سروس کو زیادہ موثر بنا کر نہ صرف اس سہولت کوایک انڈسٹری کی شکل دے سکتی ہیں بلکہ اس سے خاطر خواہ ٹیکس بھی حاصل کیاجاسکتا ہے کیونکہ نجی ٹیکسی سہولت ایک ایسی سروس ہے جو آپ کوآپ کے دروازے تک میسر ہے۔ایمرجنسی کی صورت میں بھی یہ ایک موثر سروس ہے کیونکہ آپ کوجب فو ری طو ر پر ایمبو لینس دستیاب نہیں ہو تی لیکن آپکی کال پر فوری طور پر ٹیکسی مل جا تی ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ نجی ٹیکسی سروس ان ڈرائیورز کے لواحقین کو ضرور معائوضہ دے جو ایک انتہائی قیمتی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ حکو مت اب سینیٹ اور سیا سی لڑ ائی سے نکل آئے کیو نکہ بعض چیزوں کو ہم غیر اہم یا چھوٹا سمجھ کرنظر انداز کردیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ بہت اہم ہوتی ہیں۔

تازہ ترین