• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتوں نے نئی حلقہ بندیاں مستدر کردیں

خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتوں نے نئی حلقہ بندیاں مستدر کردیں

احتشام طورو

الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میںنئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے فہرست جاری کر دی ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 4نشستوں کا اضافہ ہوگااور تعداد35کی بجائے39ہوگی،قومی اسمبلی کی نشستوں میں پشاور، سوات، دیر لوئر اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ایک نشست کا اضافہ کیاگیا ہے۔خیبر پختونخوا اسمبلی میںجنرل نشستوں کی تعداد برقرار رہے گی جن کی تعداد 99ہے تاہم چترال، چارسدہ، ہری پور ، ایبٹ آباد اور صوابی سے صوبائی اسمبلی کی ایک ایک جنرل نشست کم ہوگی جبکہ پشاور میں 3‘دیر لوئراور سوات میں ایک ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کا اضافہ ہوگا۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں کا آغاز چترال سے ہوگا‘ چترال سے قومی اسمبلی کی نشست این اے ون اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے ون ہوگی تاہم نئی حلقہ بندیوں سے عوام چکرا گئے جبکہ سیاسی پارٹیاں اور آنیوالے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند سیاستدان بھی گو مگوں کی کیفیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد مختلف حلقوں کی صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے اور بعض حلقوں میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے تین‘ تین اور دو‘ دو امیدوار سامنے آئے ہیں جس سے انتخابات کے خواہشمند امیدواروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے‘ پورے ملک خصوصاً خیبر پختونخوا میں نئی حلقہ بندیاں عوامی خواہشات کے برعکس کی گئیں ایک ہی علاقے کے لوگوں کو الگ الگ حلقوں میں تقسیم کردیاگیا اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں سے نہ تو تجاویز طلب کی گئیں نہ ان سے مشورہ کیاگیا‘ الیکشن کمیشن سے پُرانی حلقہ بندیوں اور نشستوں کی بنیاد پر 2018 ء کے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ بندیوں سے قبل خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت سے ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی کیلئے فہرست طلب کی گئی تھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے صوبائی حکومت پر الزام لگایا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے اپنے من پسند افسروں کی فہرست دی گئی ان من پسند افسروں کی سفارشات کی روشنی میں حلقہ بندیاں کی گئیں جو انتخابات سے قبل دھاندلی کے آغاز کاسلسلہ ہے۔ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے نئی حلقہ بندیوں کو مسترد کردیا ہے اورشدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے صوبائی ا لیکشن کمشنر پر بھی اس حوالے سے الزامات لگائے جارہے ہیں کہ انہوں نے بھی اس حوالے سے جانبداری کا مظاہرہ کیا اور بعض اضلاع میں ایک سیاسی جماعت کی خواہش کے مطابق حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ‘تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے‘متفقہ لائحہ عمل کے سلسلے میں آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے‘سیاسی جماعتوں کے مطابق اس عمل سے امیدواروں کیلئے مشکلات اور پیچیدگیاں پیداہونگی‘ نئی حلقہ بندیاں جمہوری اصولوں اور زمینی حقائق کے تقاضوں کے سراسر منافی ہیں جو کسی صورت قابل قبول نہیں ‘ضروری قانونی اور آئینی تضاضے پورے نہیں کئے گئے‘ الیکشن کمیشن تمام سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے‘صوبے کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک پر الزامات عائد کرتے ہوئےکہا کہ صوبائی حکومت حالیہ حلقہ بندیوں پر اثر انداز ہوئی ہیں ‘نوشہرہ میںآ ل پارٹیز کانفرنس میں شریک تمام دینی ‘ سیاسی جماعتوں اور بشمول پی ٹی آئی کے منحرف اراکین سمیت دیگر رہنمائوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ضلع نوشہرہ میں حالیہ حلقہ بندیوں کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی سازش قرار دیااور الزام عائد کیا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اپنی خواہش کے مطابق حلقہ بندیوں میں مداخلت کی جو ناانصافی، جمہوری راستہ بند کرنے اور 2018 ءکے عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کیلئے بھر پور منصوبہ بندی کا حصہ ہے جسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دینگے ‘واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے متعلق جو ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے یہ سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بغیر عمل میں لایاگیا جوکہ جمہوری عمل اور قوانین کے مطابق نہیں اس طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حلقہ بندیاں بعض لوگوں کو خوش کرنے کیلئے کی گئی ہیں جس سے جانبداری اور بدنیتی کی بو آرہی ہے۔حلقہ بندیوں کے حکم نامے کو فی الفور واپس لیکر ازسرنو سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نئی حلقہ بندیاں تشکیل دی جائیں۔ یہاں پر ایک بات واضح ہے کہ اگر کسی ضلع میں آبادی زیادہ ہوچکی تھی تو نئے صوبائی وقومی حلقے بنادیتے یہ کونسی منطق ہے کہ ایک حلقے سے کسی یونین کونسل کو جداکرکے دوسرے حلقے کے ساتھ نتھی کی جائےملک میں پہلے سے ہی سیاسی بحران چلا آرہا ہے اور ہر طرف سے قیاس آرائیاں عام ہیں کہ انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوں گے ان حالات میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے نئی حلقہ بندیوں کو مسترد کرنے اور ان پر شدید تحفظات کااظہار کرنا الیکشن کے التواء کی قیاس آرائیوں کو مزید تقویت دیتاہے اس لئے الیکشن کمیشن کوحالات کی نزاکت کااحساس کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور عوامی تحفظات کو بروقت دور کرنا چاہیے تاکہ آنیوالے انتخابات بروقت ہو ںاور ملک میں پرامن فضا میں جمہوری عمل کا تسلسل ہو اور غیر حقیقت پسندانہ بنیادوں پر ہونیوالی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام کی تشویش اور پریشانیوں کا نوٹس لیکر بروقت ازالہ کیاجائے تاکہ ایک خوشگوار ماحول میں 2018ء کے انتخابات کی تکمیل ممکن ہو۔

تازہ ترین
تازہ ترین