• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعمیراتی شعبہ کی مارکیٹنگ اور تشہیری مہم کا کردار

تعمیراتی شعبہ کی مارکیٹنگ اور تشہیری مہم کا کردار

نجم الحسن عطاء

ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، عوام سسٹم سے نالاں ہی کیوں نہ ہو جائیداد کی خرید و فروخت ہر دور میں عروج پر رہی ہے اور ہر دور میں زمین کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس لئے اس شعبے سے جڑی مارکیٹنگ ہمیشہ پورے سال جاری رہتی ہے۔ تاہم اس مارکیٹنگ کو عموماً لوگ دوسری مصنوعات کی ہی طرح سمجھتے ہیں جو درست نہیں۔

پاکستان میں رئیل اسٹیٹ یعنی زمین کی خرید و فروخت میں باقی شعبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ یہی وہ شعبہ ہے جو عوام کے لئے سب سے زیادہ دلچسپی کا بھی باعث ہے، اس لئے مارکیٹنگ کی کمپنیاں یہ منصوبے خرید لیتی ہیں پھر اُس کی تشہیری مہم چلاتی ہیں اور منصوبے کی جانب عوام الناس کو راغب کرتی ہیں۔

لیکن اس کے لئے ایک مربوط حکمت عملی پر عمل کرنا ہوتا ہے کیونکہ مارکیٹنگ کمپنیوں کے سامنے یہ چیلنج ہوتا ہے کہ جو پراپرٹی وہ فروخت کررہے ہیں وہ زیادہ مقبول ہوسکتی ہے یا خالی پلاٹ جس پر لوگ اپنی مرضی کی رہائش تعمیر کرسکیں۔ مارکیٹنگ کمپنیاں عموماً اچھی لوکیشن کے حامل منصوبوں کو پسند کرتی ہیں کیونکہ ایسے منصوبوں کی تشہیر کرنا نسبتاً آسان اور سہل ہے۔

 اس میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ تعمیراتی کمپنی کی ساکھ کیا ہے، آیا کسی کیس یا مقدمے کا سامنا تو نہیں، اچھی شہرت ہے یا بری، کیا کمپنی دئیے گئے شیڈول کے مطابق منصوبہ مکمل کرسکتی ہیں۔ اور کامیاب کمپنیاں زمینوں کے قانونی معاملات جو ہمیشہ لوگوں کے لئے باعث پریشانی ہوتے ہیں، اُن کی چھان بین کرکے شفاف طریقے سے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔تاہم اس کا دارومدار کمپنی کی ساکھ پر ہے۔

ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، عوام سسٹم سے نالاں ہی کیوں نہ ہو جائیداد کی خرید و فروخت ہر دور میں عروج پر رہی ہے اور ہر دور میں زمین کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ کراچی میں مکانات کی کمی اور فلیٹس کا ہر سال بڑھتا ’جنگل‘ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ 

تاہم ان کئی منصوبوں میں تعمیراتی کمپنیاں یا تو خود فروخت کرتی ہیں یا پھر کسی تیسری پارٹی کو منصوبے میں بنائے جانے والے فلیٹ، گھر یا کمرشل دکانوں کو فروخت کردیتی ہیں۔ اس طرح ایک عام خریدار کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اُس کی خریدی جانے والی پراپرٹی میں دو حصے دار ہیں جو نقصان کو کم کرسکتے ہیں۔

کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد اور ناظم آباد کے کئی رہائشی پروجیکٹس کے مالک اور پیشے کے اعتبار سے بلڈر، ریحان نے جنگ کو بتایا ’جائیداد کی خرید و فروخت میں سرمایہ کاری صرف اندرون ملک کے سرمایہ کار ہی نہیں کرتے بلکہ سب سے بڑی ’لین دین‘ بیرون ملک مقیم پاکستانی کرتے ہیں۔

 ہر سال رمضان میں ایسے سرمایہ کاروں کی آمد شروع ہوتی ہے اور عیدالاضحیٰ تک جاری رہتی ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والا ’بائر‘ اپنی سرمایہ کاری کے لئے سب سے محفوظ سیکٹر، رئیل اسٹیٹ کو ہی قرار دیتا ہے اور یہی سچ بھی ہے۔

رئیل اسٹیٹ کے بڑھتے ہوئے کاروبار کا اندازہ اخبارات میں بڑی تعداد میں شائع ہونے والے جائیداد کی خرید و فروخت کے اشتہارات سے بھی ہوتا ہے۔ مارکیٹنگ کمپنیاں اس سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں خاص کر اتوار کو کسی بھی زبان کا کوئی بھی ایڈیشن اٹھا کر دیکھ لیجئے، صفحہ?اول سے آخر تک فلیٹس، پلاٹس، بنگلوز، ون یونٹس، مکانات اور دکانوں کے’تین سطری‘ سے لیکر پورے پورے صفحے کے کلر اشتہارات بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ 

ضمیمے اس کے علاوہ ہیں۔ اس کے باوجود، بسا اوقات اخبارات کے جگہ تک کم پڑجاتی ہے اور انہیں اشتہارات کی بکنگ روکنا پڑجاتی ہے۔

اخبارات میں جگہ کی تنگی کہئے یا عوام میں اِی کامرس کا بہت تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان۔۔اب ایسی بہت سی ویب سائٹس بھی آن لائن ہیں جو جائیداد کی خرید و فروخت سے متعلق مکمل اعداد و شمار اور لوگوں کے رجحان سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ 

مثلاً ’زمین ڈاٹ کام‘، ’جنگ کلاسیفائیڈ‘ اور ’او ایل ایکس‘ جس پر پراپرٹی خریدنے اور بیچنے کے اشتہارات کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ آج لوگوں کی بہت بڑی تعدادان ویب سائٹس کا باقاعدہ وزٹ کرتی ہے۔

پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کا رجحان اور مارکیٹنگ کمپنیاں

امریکہ میں بسنے والے تارکین وطن کی تعداد کے حوالے سے پاکستانیوں کا نمبر بارہواں ہے۔ امریکی مردم شماری بیورو کے سال 2010کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی نژاد امریکیوں کی تعداد 363,699تھی جبکہ کچھ دیگرجائزوں کے مطابق امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی تعداد پانچ سے سات لاکھ ہے، ان کی اکثریت سرمایہ کاری کے لئے پہلے پاکستان کو اور دوسرے نمبر پر رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو ترجیح دیتی ہے۔

مارکیٹنگ کمپنیوں کے مطابق ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے گزشتہ سال 18اعشاریہ 4بلین ڈالرز پاکستان بھیجے جبکہ صر ف ستمبر کے مہینے میں پاکستان بھیجی جانے والی رقم ایک اعشاریہ آٹھ بلین ڈالرزتھی۔اس رقم میں 27فیصدسعودی عرب، 24فیصد متحدہ عرب امارات اور15فیصد امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے بھجوائی۔

بیرونی ممالک سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم کا 15سے20فیصد براہ راست رئیل اسٹیٹ یا زمین کی خرید و فروخت اور اس سے جڑے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے۔

بقول اُن کے، ’گزشتہ سال ایک سروے کرایا گیا تھا جس میں 78فیصد افراد نے پراپرٹی میں سرمایہ کاری کو منافع بخش قرار دیا۔ اپنے آبائی وطن میں زمین اور جائیداد خریدنے کی خواہش کے باعث امریکہ میں رہنے والے پاکستانی بھی پراپرٹی سیکٹر میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’پاکستان میں زرمبادلہ کا 60فیصد خلیجی ریاستوں سے آتا ہے۔امریکی نژاد پاکستانی مڈل ایسٹ میں رہنے والے ورکنگ کلاس پاکستانیوں کی نسبت زیادہ خوشحال ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکی نژاد پاکستانیوں کی خریدی ہوئی جائیداد سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے مقابلے میں اوسطاً 24فیصد جبکہ یواے ای میں رہائش پذیرپاکستانیوں کے مقابلے میں 10فیصد مہنگی ہوتی ہے۔

تازہ ترین