• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک شام میں قیامت خیز تباہی خصوصی تحریر…ایم طفیل

ملک شام میں اس وقت ہونے والی تباہی کے پس پردہ امریکہ، اسرائیل اور روس سرگرم عمل ہیں جہاں اب تک لاکھوں افراد بےگھر اور موت کے منہ میں جاچکے ہیں حالانکہ یہ وہ ملک ہے جو ظہور اسلام سے قبل بھی انبیاء کی سرگرمیوں کا مرکز اور پناہ گاہ ثابت ہوا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود سے نجات اور اس کی تباہی کے بعد شام کا رخ اختیار کیا تھا اور حضرت لوط ؑ کے لئے بھی یہ شہر پناہ گاہ رہا۔ یہ شہر نہ صرف عرب ممالک بلکہ اس دور کے کئی دوسرے ملکوں کے لئے تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ حضور نبی کریم ؐنے بچپن میں حضرت ابو طالب کے ہمراہ جو تجارت کی غرض سے یہاں آئے تھے یہ شہر دیکھا جہاں بعض اسرائیلی عمائدین نے آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر آپؐ کے رسول ہونے کی بشارت دی اور اعلان نبوت کے بعد آپ کے دست مبارک پر بیت کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ حضور نبی کریم ؐ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ کی تمام تجارت کا مرکز دمشق تھا اور ان کا پہلا اونٹ سامان تجارت کو اٹھائے مکہ مکرمہ کے باہر ا ور آخری اونٹ دمشق تک پہنچ جاتا تھا۔ ان کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی اور حضرت خدیجہ ؓ مکہ معظمہ کی سب سے مالدار صاحب استطاعت اور کاروباری خاتون تھیں۔ نبی کریم ؐ نے اس شہر کے حق میں متعدد مرتبہ دعائیں مانگیں اور یہ بھی فرمایا کہ فتنہ کے دور میں ایمان صرف شام میں باقی رہے گا۔ آپؐ نے اسے مومن کا بہترین ٹھکانہ قرار دیا اور اسے اہل حق کا مرکز کہا۔ غرض حضور نبی کریم ؐ نے متعدد موقعوں پر اس شہر کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی تعریف و تحسین میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ سانحہ کربلا کے بعد بھی بی بی زینبؓ تمام لواحقین کے ہمراہ دمشق روانہ ہوئیں اور یزید کی طرف سے سیدنا امام حسینؓ کی لاش کی بےحرمتی پر جس شدید ردعمل کا اظہار کیا،اس نے آپ کو شہادت کے مقام پر پہنچا دیا۔ غرض خلافت راشدہ کے بعدبنو عباس کی خلافت تک دمشق اسلامی تہذیب کا مرکز رہا اور ملک شام کو زبردست اہمیت حاصل رہی۔ حضرت خالد بن ولید ؓ اور بی بی زینب ؓکے مزارات کی موجودگی بھی اس شہر کے تقدس میں اضافہ کرتی ہے ۔ حضرت بلال حبشی ؓ نے نبی کریم ؐ کی وفات کے بعددمشق میں سکونت اختیار کرلی تھی۔


لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ موجودہ دور میں شدت پسندوں نے تمام مسلمان طبقوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ اس وقت شام کے مسلمانوں پر ایک قیامت برپا ہے۔ اقوام متحدہ اور بعض اسلامی ممالک کی بار بار اپیلوں کے باوجود ان کا قتل عام جاری ہے۔ روس اور امریکہ کے علاوہ شام کے طیارے باغیوں کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اب تک زخمی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرگئی ہے۔ افسوسناک ا مریہ ہے کہ مسلمان ممالک کی فرقہ پرستی بھی شام کے مظلوم عوام کی مدد کرنے میں ایک رکاوٹ بن چکی ہے اگر اسلامی ممالک نے فرقہ پرستی کو ترک کرکے شام کے عوام کی حفاظت کرنے کا عمل شروع نہ کیا تو شامی مسلمانوں کو تباہی سے کوئی نہ بچاسکے گا۔ روس اور امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل ہیں۔2018میں باغیوں کے نام پر شہریوں کے قتل عام میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں مسلسل فضائی حملوں نے متعدد علاقوں کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے اور شامی عوام زیر زمین خندقیں کھود کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،ان کے لئے رہائشی مکانات کا تصور ہی محال ہوچکا ہے۔ انہیں پانی ا یندھن اور غذائی اشیاء بھی میسر نہیں۔ عالم انسانیت کے لئے یہ صورتحال المناک ہے ابھی تک اس جنگ کا خاتمہ نظر نہیں آتا۔ شام کے حکمران اپنے ہی شہریوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کررہے ہیں جس سے عالمی راہیں بھی مسدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ سرکاری فوج اور روسی طیاروں کی بمباری نے تمام علاقوں کو قبرستان میں بدل دیا ہے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی طرف سے اس جنگ کو روکنے کے لئے تمام قراردادیں بےاثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ شام کی حکومت نے ان قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کرکے انہیں ناکام بنادیا ہے، اگر جنگ بندی ممکن ہوتی تو متاثرین کو امدادی اشیاء کی فراہمی کو ممکن بنایا جاسکتا تھا۔ شامی حکومت نے اس ادارے کی قراردادوں کو بےاثر کردیا ہے اور قتل عام کا سلسلہ رک نہیں سکا۔ حکومت شام نے بھی امدادی اشیاء کی فراہمی کے راستے بند کردئیے ہیں جس سے مظلوم عوام فاقہ کشی کے ہلاک ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک اس صورتحال کا نوٹس لیں امریکہ اور روس کو بھی جنگ سے روکیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس کا ازالہ پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین