• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کے منتخب ارکان کو کم از کم پارلیمانی زندگی میں صداقت اور دیانت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ چند پیسوں یا کسی دوسرے ذاتی مفاد کی خاطر اپنے اصولوں پر سودے بازی یا اپنی سیاسی پارٹیوں سے غداری کر سکتے ہیں۔ وہاں پارٹیاں بدلنے کی روایت بھی نہیں کیونکہ پارٹیاں اقتدار کی نہیں اصولوں کی سیاست کرتی ہیں اور جو لوگ ان کی رکنیت اختیار کرتے ہیں وہ ان کے قومی ایجنڈے، منشور اور پروگرام کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر اور اپنی سوچ کے مطابق درست سمجھ کر ایسا کرتے ہیں۔انتخابات میں عوام مختلف ایشوز پر ان کے موقف کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں اور جو پارٹی قول ہی نہیں فعل میں بھی ان کے معیار پر پورا اترتی ہے جیت جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا جس کا آسانی سے یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ یہاں حقیقی جمہوریت اور جمہوری روایات کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں پہلے صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور بعد میں منتخب سینٹروں کے ووٹوں کی بولی لگنے اور پارٹی ہدایات نظر انداز کرنے کے الزامات نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور لوگ اپنے نمائندوں کے قول و فعل کے بارے میں سوالات اٹھانے لگے ہیں کہا جاتا ہے کہ سینٹروں اور پھر سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں اربوں روپے کی ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ اس سلسلے میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی خرید فروخت کا چرچا ہو رہا ہے چیف الیکشن کمشنر ریٹائرڈ جسٹس سردار رضا خان نے اس معاملےکے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ ووٹ خریدنا اور بیچنا دونوں جرم ہیں اور بدقسمتی سے خریدنے اور بیچنے والے دونوں ہی پارلیمنٹ کے ارکان ہیں۔ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی تحقیقات اور اس مقصد کے لئے تحقیقاتی ایجنسیوں کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے سماعت کے دوران کہا کہ کمیشن ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات کے لئے اپنے تمام اختیارات استعمال کرے گا اور ایف آئی اور دیگر ایجنسیوں سمیت خفیہ اداروں کی مدد لے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے الزامات لگانے والے تمام ارکان پارلیمنٹ اور پارٹی سربراہوں سے شواہد طلب کر لئے ہیں۔ دوران سماعت ایک پارٹی سربراہ کے وکیل نے کہا کہ اس پارٹی کے6ارکان صوبائی اسمبلی نے ووٹ بیچے اس سلسلے میں تحریری دستاویزات جمع کرا دی گئیں۔ ایک اور لیڈر نے عوامی اجتماعات میں کہا کہ ایم پی ایز کی چار چار کروڑ روپے کی بولی لگی۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر ہارس ٹریڈنگ کی خبریں چلتی رہیں اور سیاسی رہنمائوں نے تحریری بیانات بھی دیئے۔ اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ پارٹی ارکان کی تعداد سے زیادہ ووٹ لینا ہارس ٹریڈنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کو عددی اکثریت حاصل تھی مگر وہ ہار گئے جس کا مطلب یہی ہے کہ ان میں سے کچھ نے اپنی پارٹیوں کی ہدایات کی پاسداری نہیں کی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کرانے والے مبینہ خفیہ ہاتھوں نے مسلم لیگ ن کے9ارکان توڑے۔ یہ بات یقینی بنانے کے لئے کہ انہوں نے واقعی اپوزیشن امیدوار کو ووٹ دیئے، ان کے ووٹ کی نشاندہی کے لئے علامتیں طے کی گئیں اس طرح سینیٹ سیکریٹریٹ نے رائے دہی کا عمل خفیہ رکھنے کے لئے جوانتظامات کئے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات خوش آئند اقدام ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کی رسیدیں نہیں ہوتیں اس لئے یہ تعین کرنا آسان نہیں کہ کس نے ووٹ بیچے اور کس نے خریدے۔پارلیمنٹ کو قانون سازی کے ذریعے الیکشن کا ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ آئندہ کوئی ہارس ٹریڈنگ نہ کر سکے اور اندرون ہی نہیں بیرون ملک بھی پاکستان اور اس کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی ساکھ بحال ہو سکے۔

تازہ ترین