• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عربی زبان میں مثل مشہور ہے کہ ’’موت العالِم موت العالَم‘‘ یعنی ایک دانا اورعلم و حکمت کے پیکر کا دنیا سے اُٹھ جانا، ایک عہد کاخاتمہ ہے۔ رب العالمین کی ودیعت کردہ ذہانت استعمال میں لا کر بعض انسان اپنے اپنے شعبوں میں مثال بن کر ابھر ےاور ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے پر انکےکام سے رہنمائی لیکر دوسروں نے اسے آگے بڑھاکر انسانوں کی زندگی سہل اور محفوظ بنانے کی کامیاب سعی کی۔ برطانیہ کے شہرہ ٔ آفاق ماہر طبیعات اسٹیفن ہانگ بھی ایسے ہی نابغہ ٔ روزگار شخصیات میں شامل تھے، جو بدھ کے روز 76برس کی عمر میں دار ِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اسٹیفن ہاکنگ کو آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کابجا طور پر دوسرا بڑا سائنس دان قراردیا جاتا ہے۔ انکا زیادہ تر کام ثقب اسود یعنی بلیک ہول کے بارے میں ہے۔انکی تصنیف ’’وقت کی مختصرتاریخ‘‘ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی سائنسی خدمات اپنی جگہ، وہ انسانی جدوجہد اور کبھی شکست تسلیم نہ کرنے کا استعارہ تھے۔ زمانہ طالب علمی میں وہ کوئی زیادہ نمایاں طالب علم نہ تھے لیکن سوچتے زیادہ تھے۔ ان کے اساتذہ ہمیشہ شاکی رہے کہ اس طالب علم نے بسلسلہ تعلیم کبھی اپنی پوری قابلیت استعمال نہیں کی۔ جب انہوں نے آکسفورڈ سے سند حاصل کی تو محض 21سال ی عمر میں سے ایک عجیب بیماری موٹرنیوران نے گھیر لیاجس میں مبتلا شخص زیادہ سے زیاہ چند سال زندہ رہ پاتا ہے۔ اس المناک واقع کے بعد ہاکنگ نے خود کو ایک جگہ مرتکز کرلیا اور اضافیت کے مشکل ترین سوالات سے نمٹنا شروع کردیا حالانکہ وہ بیماری کے سبب ہل جل بھی نہ سکتے تھے لیکن ان کادماغ درست کام کرتا تھا۔ سمعی و گویائی کے آلات کا استعمال کرکے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچاتے۔ جس بیماری کامریض چندسال بھی زندہ نہیں رہ سکتا اس کیساتھ وہ قریباً آدھی صدی زندہ رہے۔ ’’ہر ذی نفس کوموت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی ہمارے لئے ایک سبق ضرور رکھتی ہے کہ قوت ِ ارادی غیرمتزلزل ہو تو خطرناک بیماریوں سے لڑ کر بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جاسکتے ہیں۔

تازہ ترین