• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا گزشتہ سال حادثوں، شورشوں اور مغالطوں میں بیت گیا اور ماحول کو سوگوار کر گیا ہے۔ ہمارے ہاں حال ہی میں سینیٹ کے انتخابات ہوئے اور نت نئے طریقے سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ بعض سیاسی لیڈروں کو مغالطہ ہے کہ جمہوریت فتح مند رہی اور حکمران جماعت کو شکست ہوئی۔ ایک حد تک اُن کی بات درست ہے، کیونکہ بلوچستان میں آناً فاناً حکومت کی تبدیلی سے یہ تاثر ملا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹی جا رہی ہے، مگر پولیٹیکل انجینئرنگ اس مہارت سے کی گئی کہ جمہوریت کا چہرہ بھی پوری طرح مسخ نہیں ہوا اَور اس کے جسم سے روح بھی کھینچ لی گئی۔ اس بار سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ اس بڑے پیمانے پر اور اس قدر ڈھٹائی سے ہوئی کہ بے ضمیروں کا ضمیر بھی چیخ اُٹھا۔ وہ جماعت جس کا ایک ووٹ بھی صوبائی اسمبلی میں نہیں تھا، اس نے غیر اخلاقی ہتھکنڈوں سے ناقابلِ فہم تعداد میں نشستیں جیت لیں۔ نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل جناب حاصل بزنجو جو سیاست میں ایک شاندار ماضی کے حامل ہیں، انہوں نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں منڈیاں لگی ہوئی تھیں اور ایک ایک ووٹ کے کروڑوں میں سودے ہوئے۔ عمران خان کو بھی بہت گہرا زخم لگا ہے اور الیکشن کمیشن نے بھی ہارس ٹریڈنگ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے عدالت لگا لی ہے، مگر اہلِ حرص و ہوس بدستور مغالطوں کے بھنور میں غوطے کھا رہے ہیں۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو بری طرح مات ہوئی ہے۔ ایک جماعت کی دشمنی میں بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے آپ کو چند آزاد سینیٹروں کے آگے سرنڈر کر دیا۔ پیپلز پارٹی کو چیئرمین کی نشست پلیٹ میں رکھ کر مل رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی قیادت نے میاں رضا ربانی کو مشترکہ امیدوار بنانے کی پیشکش کی کہ چیئرمین کی حیثیت سے ان کی کارکردگی بہت مثالی تھی۔ جناب آصف زرداری نے ان کی پیشکش یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ انہیں ڈکٹیٹ کرنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا۔ ایک اچھی روایت کے تسلسل سے جمہوریت کا چہرہ بھی مزید روشن ہوتا اور پیپلزپارٹی کی سیاسی دلربائی میں اضافہ ہوتا، مگر انہوں نے سیدھا راستہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور وہ بلوچستان کے آزاد سینیٹرز کی درگاہ میں حاضر ہو گئے جہاں عمران خان پہلے ہی سجدہ ریز ہو چکے تھے۔ اسی سجدہ ریزی کے نتیجے میں جناب صادق سنجرانی چیئرمین اور جناب سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے جو سیاست دان سے زیادہ کاروباری شخصیتیں ہیں۔ بلاشبہ ہماری خواہش کے عین مطابق بلوچستان سے چیئرمین کا انتخاب ہوا ہے جس سے وفاق مستحکم ہو سکتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس پورے عمل کے پس پردہ کون سے عناصر کارفرما رہے ہیں اور ان سے صحت مند سیاسی عمل کو کس قدر ضعف پہنچا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے بڑا بلیغ تبصرہ کیا ہے کہ بالادست طاقت زرداری پر بھی بھاری ہے۔ قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس اخلاق باختہ انتخابی عمل سے سیاسی جماعتوں اور اداروں کے مابین بے اعتمادی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔
سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اس سے آنے والے رجحانات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے، مگر 104افراد پر مشتمل ادارے کے انتخابات کو عام انتخابات پر منطبق کر دینا درست معلوم نہیں ہوتا۔ عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے کروڑوں ووٹر نکلتے ہیں جن کو خریدا جا سکتا ہے نہ انہیں ہدایات کی زنجیریں پہنائی جا سکتی ہیں۔ عام آدمی کے ووٹ کا تقدس ایک پُرکشش نعرہ ہے جو لوگوں کے اندر زبردست جوش و خروش پیدا کر رہا ہے۔ کھلی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ جلسوں میں جوق درجوق کشاں کشاں چلے آ رہے ہیں۔ یہ وارفتگی اس امر کا پتہ دے رہی ہے کہ سیاسی عمل کے آگے بند باندھنے والی تمام طاقتیں پسپا ہونے پر مجبور ہو جائیں گی۔ خرد مندوں کے لیے یہ نشانیاں کافی ہیں۔ کسی کو اس مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے کہ عوام 1955ء جیسے عدالتی فیصلے اور 1999ء جیسے ٹیک اوور کو برداشت کرلیں گے۔ حکمرانی کا حق انہی سیاسی جماعتوں کو ملے گا جو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کریں گی اور عوام کے منتخب نمائندوں کو ریاستی اختیارات استعمال کرنے کا مجاز سمجھیں گی۔ اس ضمن میں عدلیہ کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے استحکام سے معاشرہ مضبوط ہو گا۔
مجھے ایک اور مغالطے نے حیرت زدہ کر دیا۔ ہمارے فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ایک قابلِ قدر شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے دل میں عوام کا درد بھی ہے اور وہ نظامِ مملکت میں بھی اصلاح چاہتے ہیں۔ ان کے بعض اقدامات اور اعلانات سے عوامی بھلائی کے بہت سارے کام سرانجام بھی پائے ہیں۔ ان کی زبردست آرزو ہے کہ آنے والے انتخابات منصفانہ، آزادانہ اور شفاف ہوں اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ 1970ء جیسے شفاف انتخابات کرانے کے لیے بیورو کریٹس کو بھی دوسروں صوبوں میں تبدیل کر دیں گے۔ یہ پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ 1970ء جیسے شفاف انتخابات کرائے جائیں گے۔ ان کا یہ بیان تاریخی حقائق سے بے خبری کا تاثر دیتا ہے۔ ہم نے 1970ء کے انتخابات ہوتے دیکھے جو ملک کے بدترین انتخابات تھے۔ حکومت نے کسی قسم کی دھاندلی کا منصوبہ تو نہیں بنایا تھا، لیکن ایسے حالات پیدا کرنے میں پوری معاونت کی جن میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہ رہا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کے خلاف اگرتلہ سازش کیس کا مقدمہ چل رہا تھا اور اس ٹربیونل کے سربراہ جسٹس ایس اے رحمٰن تھے۔ مشتعل مظاہرین نے عدالت میں ان کا گھیراؤ کر لیا اور وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر کراچی پہنچے۔ اس کے بعد وہاں حکومت کی رِٹ ختم ہو گئی تھی۔ آغا یحییٰ خاں کے مارشل لا میں انتخابی مہم ایک سال جاری رہی۔ شیخ مجیب نے شروع ہی میں جماعت اسلامی کے جلسے پر پوری طاقت سے حملہ کیا اور اس کے بعد کسی سیاسی جماعت کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی۔ سول انتظامیہ شیخ صاحب کا ہر حکم بجا لا رہی تھی۔ انتخابات کے دن کسی بھی مخالف جماعت کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے نہیں دیا گیا اور عوامی لیگ کے مسلح غنڈے سول انتظامیہ کی اعانت سے ٹھپے لگاتے رہے۔
مغربی پاکستان میں بھی پنجاب اور سندھ میں یہی ڈرامہ پیپلز پارٹی نے رچایا۔ ان دنوں ووٹ ڈالنے کے لیے شناختی کارڈ کی شرط تھی نہ فہرستوں پر ووٹر کی تصویریں چسپاں تھیں۔ ووٹر کی عمر 21سال تھی۔ اس وقت نظریاتی تقسیم انتخابی عملے میں بھی پائی جاتی تھی، چنانچہ خواتین کے جعلی ووٹ بڑی تعداد میں بھگتائے گئے اور پندرہ سولہ سال کی عمر کے لڑکے بھی قطار در قطار ووٹ ڈالتے رہے۔ اس طرح پورا انتخابی عمل بڑے پیمانے پر دھاندلی کا شکار ہوا۔ فاضل چیف جسٹس صاحب! ہمیں ایسے بدترین انتخابات کا انعقاد نہیں چاہیے کہ یہ ہمیں سیاسی دہشت گردوں کے حوالے کر دیں گے۔ ایم کیو ایم یہی کام کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں کرتی آئی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین