• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت دکھ سمیٹ لئے، کئی بار آنکھیں نم ہوئیں،دو چار مرتبہ تو حوصلہ ہارتے ہارتے رہ گئے۔ بس بہت ہوا۔ آج بالکل الگ، بالکل جدا کہانی ہے۔ ایک ایسے چھوٹے سے شہر کی داستان جہاں نہ کوئی مار ہوتی ہے نہ پیٹ، نہ دنگا ہوتا ہے نہ فساد، نہ خوںریزی ہوتی ہے اور نہ آتشزنی۔ یہ بات میں یوں ہی نہ کہتا، یہ حقیقت میں خود دیکھ کر آیا ہوں اپنی آنکھوں سے۔اور اس کے لئے میں نہ پہاڑوں پر چڑھا نہ دریاؤں میں اترا، نہ جنگلوں سے گزرنا پڑا نہ صحراؤں سے بلکہ یہ تو ہرے بھرے کھیتوں کے پرے،درختوں کے جھنڈوں میں چھپا، دور تک ساتھ چلی جانے والی ایک جھیل کے پار خیرپور کا ایک قصبہ ہے جس کا نام بوزدار ہے۔ اور چونکہ اس علاقے میں اس نام کے کئی گاؤں ہیں اس لئے ہماری اس سکھ چین کی بستی کا نام بوزدار وڈا رکھ دیا گیا ہے۔ وڈا یعنی بڑا۔ سچ پوچھئے تو اتنا بڑا بھی نہیں لیکن دس سے پندرہ ہزارتک آبادی کی بستی چھوٹی کب کہلائی۔ مجھے وہاں کی سڑک پر جو واحد رکاوٹ ملی وہ ہائی اسکول کے وہ بچّے تھے جو چھٹّی ہونے پر اسکول سے نکل رہے تھے اور اتنے سارے تھے (یہاں ماشاء اﷲ کہنے کو جی چاہتا ہے) کہ کار کا راستہ رک گیا ۔ پتہ کیا تو معلوم ہوا، ذرا غور سے سنئے، معلوم ہوا کہ اسکول جانے کی عمر کا اس بستی کا ہر بچّہ اسکول جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ بوزدار صرف نام ہی کا وڈا نہیں، حقیقتاً بڑا ہے۔
خیرپور سے چل کر، کوٹ ڈیجی ہوتے ہوئے ہم سب سے الگ تھلگ سڑک پر آگئے جس کے بائیں ہاتھ پر ہمارے ساتھ ساتھ ایک جھیل چل رہی تھی۔جھیل کا پانی شفاف تھا اور اس پر پلاسٹک کا کچرا بھی نہیں تیر رہا تھا۔ بار بار مچھلیاں سطح پر سانس لینے آتی تھیں۔ میری توجہ دیکھ کر میرے ہمراہ چلنے والے سفر پھل پوٹو صاحب نے بتایا کہ یہاں کبھی بڑا دریا بہتا تھا جس سے علاقے میں خوش حالی تھی۔ دریا اپنی راہ بدل گیا لیکن پانی کی بہتات ہے ،عمدہ مچھلی ملتی ہے، اب تو مچھلی کی فارمنگ بھی کرنے لگے ہیں۔ کاشت خوب ہوتی ہے، گندم، کیلا ا ور کپاس بہت پیداہوتی ہے۔اس کے کنارے رہنے والے بہت غریب تھے۔ یہ بات سن کر میں چونکا۔ میں نے سڑک کے دائیں ہاتھ پر کچھ بوسیدہ عمارتیں اور حلوائیوں کی دکانیں دیکھیں جن میں گرم سموسے اور پکوڑے تلے جارہے تھے۔ میں نے کہا کہ اس غریب علاقے میں سموسے کون خریدتا ہوگا۔ بتایا گیا کہ غریب کسان اپنی اگائی ہوئی کپاس دے کر ضرورت کی چیزیں حاصل کر لیتے ہیں۔ذرا دیر بعد ہم بوزدار وڈا میں داخل ہوئے جہاں ہم امریکہ یا یوں کہئے کہ یو ایس ایڈ کی مدد سے بننے والا اسکول دیکھنے جارہے تھے۔ اس قدیم قصبے میں اسکول کی نئی نکور عمارت دیکھ کر حیرت ہوئی۔ امریکی صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو امداد دے کر بُرا کیا۔ کیا ہوگا۔ ہمیں اس خاموش اور پرسکون بستی میں ایسا اچھا، صاف ستھرا، نفیس اور جدید طرز کا اسکول مل گیا جس میں اُس روز دو چار نہیں، نو سو سے زیادہ بچّے تعلیم پارہے تھے۔ یہ سوچ کر دل نہال ہوگیا کہ اس وقت شہر کے سارے بچّے اپنی جماعتوں میں ہوں گے اور مائیں اطمینان سے گھر کے کام کاج کررہی ہوں گی۔اسکول کے کمروں میں جھانک کر دیکھا۔ بچّے سر جھکائے امتحان دے رہے تھے اور ان کے خیال سے دوسرے بچّے شور مچائے بغیر خاموشی سے باہر جارہے تھے۔ اس ہائی اسکول کے پرنسپل عبداللطیف بوزدار صاحب نہ صرف خود بڑے تپاک سے ملے بلکہ ایک بہت ہی آراستہ کمرے میں دوسرے اساتذہ سے بھی ملوایا جن کی تعدادچونتیس ہے۔ میں نے حیران ہوکر کہا۔’’ اتنے بہت سے استاد؟‘‘ جواب ملا کہ ابھی دس اسامیاں خالی ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے یہ ہنر آتا تو ایک درخواست برائے روزگار ابھی پیش کر دیتا۔
عبداللطیف صاحب نے بڑے کام کی باتیں بتائیں۔ پتہ چلا کہ یہاں چار بڑی برادریاں آباد ہیں: بلوچ، سید، اُجّن اور میراثی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ میراثیوں کے سوا یہ سب لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ میراثیوں کا پیشہ گانا بجانا ہے، ان کے بچے اسکول کم ہی جاتے ہیں۔ جو لوگ اُجّن کہلاتے ہیں ان کے بزرگ پیشے کے اعتبار سے چرواہے تھے مگر ان میں تعلیم کا شوق جاگا اور ان کے لڑکے نہ صرف پڑھ لکھ گئے بلکہ اعلیٰ ملازمتوں تک پہنچ گئے ہیں۔ عبداللطیف صاحب نے بتایا کہ برادریاں ہونے کے باوجود یہاں لوگ اتنے پیار محبت سے اور مل جل کر رہتے ہیں اور خاص طور پر شیعہ سنّی اتحاد تو مثالی ہے۔ میں نے شہر کی دیواروں پر ایک مسلک کے نعرے لکھے دیکھے جنہیں کسی نے نہ تو مسخ کیا تھا نہ ان کی ضد میں جوابی نعرے لکھے تھے۔اس اتحاد میں شاید تعلیم کو بڑا دخل رہا ہوگا۔ معلوم ہوا کہ تالپور میروں کے زمانے ہی میں تعلیم عام ہو گئی تھی۔
بڑے تعلیمی ادارے بن گئے تھے۔جس ہائی اسکول میں ہم کھڑے تھے وہ چالیس سال پہلے قائم ہوا تھا۔یہ وہ وقت تھا کہ جب علاقے میں استاد کی بہت عزّت تھی۔اس کوبستی کا وڈیرا تصور کیا جاتا تھا۔ وہ جدھر سے گزرتا، لوگ کھڑے ہوکر سلام کرتے۔اسی کی عدالت لگتی تھی اور اس کے فیصلے مانے جاتے تھے۔ پرانے لوگوں کو ماسٹر غلام محمد اب تک یاد ہیں جو کہنے کو استاد لیکن حقیقت میں آبادی کے سرپرست تھے۔ انہوں نے بڑی عمر پائی اور آخر تک اپنے زمانے کے قصّے دہراتے رہے۔
شہر میں ایک عجب بات نظر آئی یا یوں کہئے کہ نظر نہیں آئی۔ میں نے کہیں کوئی خاتون نہیں دیکھی۔ میں نے کسی سے کہاکہ عورتیں پیچھے رہی جارہی ہیں۔ جواب ملا کہ گھبرائیے نہیں۔ لڑکیاں تمام کی تمام تعلیم پارہی ہیں۔ اسکول میں گنجائش بہت ہے۔ اگلے سال سے علاقے کی لڑکیاں اور لڑکے ایک ہی جماعت میں بیٹھیں گے۔شہر والوں کو کوئی اعتراض نہیں۔جیتے رہیں شہر والے، دل سے دعا نکلی۔
یو ایس ایڈ یعنی امریکی امداد سے اس علاقے میں چار اسکول بنے ہیں جو بنا کر انہوں نے غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے کردیئے ہیں۔ بوزدار وڈا کا ہائی اسکول انڈس ریسورس سینٹر کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ عملہ تربیت یافتہ ہے ۔ اسی احاطے میں ڈگری کالج بھی ہے، کئی پرائیوٹ اسکول بھی کھل گئے ہیں۔ اب تو بنگلے اور کوٹھیاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ پیسہ آیا ہے تو لوگ اعلیٰ نسل کے کتّے پالنے لگے ہیں۔ بس تفریح کا اور جی بہلانے کا ساز وسامان کم ہے۔ خونخوار مرغے لڑانے کا شغل پرانا ہے۔ جو تھوڑی بہت خوں ریز ی ہوتی ہے، غریب مرغوں کی ہوتی ہے۔کچھ پیسے ویسے بھی لگ جاتے ہوں گے کبھی کبھار۔ باقی راوی چین لکھتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین