• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے تو پچھلے کالم میں شائع ہونے والے شعر کو درست کرلیا جائے جو کمپیوٹرکے کرشمے سے مذکر سے مونث بن گیا تھا۔ میرے پیارے دوست آفتاب اقبال کو غلط شعر پر بہت غصہ آتا ہے، اسی طرح میرے گھر میں بھی میرے کئی ناقدین ہیں جو مجھ بے قصور پر تنقید کی اچھی خاصی بارش کر دیتے ہیں، واٹس ایپ کے گروپوں نے تنقید کرنا آسان بنادیا ہے سو لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے براہ راست تنقید کرنے کے بجائے بار بار شعر لکھ کر اس پر اپنی عالمانہ گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ ہم جیسے عاجز لوگوں کے لئے سوائے ہنسنے کے اور کچھ بچتا ہی نہیں۔ یہاں میں ایک اور وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ شہید صرف فوج، پولیس اور سیاست ہی میں نہیں ہوتے، شعر و ادب میں بھی ہوتے ہیں سو آپ کی خدمت میں درستی کے ساتھ شہید محسن نقویؔ کا شعر پیش کر رہا ہوں کہ:
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اُسے بھی تھی
میرا خیال ہے کہ ابھی ہمارے پاکستانیوں کا شوق مدہم نہیں ہوا، ابھی وہ بڑے ذوق و شوق سے شاعری پڑھتے ہیں، ابھی مشاعروں کی رونق باقی ہے، سو لگتے ہاتھوں محسنؔ نقوی کی اس غزل کے دو چار اشعار اور پڑھ لیتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے یہ پوری غزل حالیہ سینیٹ الیکشن کے لئے لکھی گئی تھی۔
ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اُسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اُسے بھی تھی
اُس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اُسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اُسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اُسے بھی تھی
سنتا تھا سب سے وہ بھی پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اُسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اُسے بھی تھی
محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حالِ دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اُسے بھی تھی
محسنؔ نقوی کی پوری غزل سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے والوں کی ترجمانی کررہی ہے۔ اب آتے ہیں سینیٹ الیکشن کے کرشماتی مناظر کی طرف کیونکہ اس مرتبہ سینیٹ الیکشن اور پھر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے وقت کئی تدبیریں الٹی ہوگئیں۔ ہم پہلے سینیٹ الیکشن کی بات کریں گے پھر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کی بات کریں گے۔
سینیٹ الیکشن کو کرشماتی بنانے کے لئے سب سے پہلے بلوچستان میںپیپلز پارٹی نے ن لیگ کی حکومت ختم کی۔ اس ’’ نیک مقصد‘‘ کے لئے آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر قیوم سومرو گزشتہ ڈیڑھ سال سے کوئٹہ کے چکر لگا رہے تھے، ان چکروں میں وہ میڈیکل ایڈ دیتے رہے اور پھر انہوں نے ایسا کرشمہ کر دکھایا جس کا ن لیگ سوچ بھی نہیں سکتی تھی، اس کا رنامے پر قیوم سومرو کو آصف علی زرداری کی جانب سے خوب داد ملی مگر ن لیگ والے نہ صرف ڈاکٹر سومرو پر تنقید کرتے رہے بلکہ انہیں تلاش بھی کرتے رہے۔ شکار پور کے رہنے والے نے خوب شکار کیا کہ بلوچستان کی پوری کابینہ کو آصف علی زرداری کے دائیں طرف بٹھا دیا، بائیں طرف سندھ کابینہ تشریف فرما تھی۔ افسوس کہ میاں نواز شریف یہ کام نہ کرسکے۔ شاید میاں صاحب کے پاس کرشماتی شخصیات نہیں ہیں۔ سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے بلوچستان کے علاوہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں کام دکھایا، پی ٹی آئی صرف پنجاب میں کام دکھا سکی جبکہ ن لیگ نے بھی خیبرپختونخوا میں کام دکھایا۔ چیف الیکشن کمشنر کی یہ بات درست ہے کہ بکنے والے بھی ممبران ہیں اور خریدنے والے بھی ممبران ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سوا باقی سب پارٹیوں کے اراکین بکے۔ جہاں تک خریداری کا تعلق ہےتو اس سلسلے میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا موقف بڑا اہم ہے کہ’’ پیپلز پارٹی کسی کو پیسے نہیں دیتی، لوگ ہمیں رضا کارانہ ووٹ دیتے ہیں‘‘ آپ اگر قائم علی شاہ کی بات مانتے ہیں تو مانیں، میں تو شاہ صاحب کے ایک پرانے بیان پر ابھی تک ہنس رہا ہوں پتہ نہیں شاہ صاحب کو کیا سوجھی کہ ایک دن کہنے لگے ۔ ’’میں تو بچپن سے عمران خان کو دیکھ رہا ہوں جب میں میٹرک میں تھا تو عمران خان قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔‘‘ شاہ صاحب کی اس بات پر میں ہی نہیں، پیپلز پارٹی کے کئی لوگ بھی خوب ہنسے۔بے اعتباری کی اس کیفیت میں مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے ڈاکٹر قیوم سومرو سے پوچھ ہی لیا کہ سنا ہے آپ نے پیسوں سے ووٹ خریدے ہیں، اس پر چانڈکا میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ڈاکٹر قیوم سومرو کہنے لگے ’’ ہم پیسوں سے ووٹ نہیں خریدتے بلکہ ہم پیار سے ووٹ لیتے ہیں، لوگ ہمیں محبت سے ووٹ دیتے ہیں مثلاً آپ کو ہم نے آج تک ایک پیسہ نہیں دیا، آپ ہم سے کیوں پیار کرتے ہیں۔‘‘ اب آتے ہیں چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کی طرف، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ سب سے اسمارٹ موو عمران خان نے چلی، انہوں نے نہ ن کا نہ پی پی کا چیئرمین بننے دیا بلکہ ایک آزاد رکن کو چیئرمین بنوا دیا۔ خیر میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کیونکہ صادق سنجرانی پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، آزاد اراکین اور کچھ دیگر پارٹیوں کے اراکین کی وجہ سے چیئرمین بنے۔ اس میں یقینی طور پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کردار بھی ہے۔ صادق سنجرانی چیئرمین اور سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین منتخب ہو چکے ہیں جبکہ دانشور شیری رحمٰن قائد حزب اختلاف بننے والی ہیں، شیری رحمٰن صحافی رہیں، سفارت کار رہیں، انتہائی سمجھدار سیاستدان ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کو چار دن ہوگئے ہیں مگر میاں نواز شریف اور ن لیگیوں کو شکست ہضم نہیں ہو رہی ہے گزشتہ روز بھی میاں نواز شریف فرما رہے تھے کہ ’’سب کو سنجرانی ہائوس کاپتہ کس نے بتایا، کونسا جی پی ایس استعمال ہوا کہ سب طرم خان ایک جگہ جمع ہوگئے۔‘‘ میاں صاحب آپ کو یاد ہوگا کہ سنجرانی ہائوس کا پتہ سب سے پہلے آپ ہی نے بتایا تھا، آپ نے 1998ء میں صادق سنجرانی کو اپنا کوارڈینیٹر بنایا تھا، آپ کے لوگ تو الیکشن کے روز راجہ ظفر الحق کو جتوا رہے تھے، میڈیا کے زور پر آپ کے لوگوں نے چار بجے تک بڑے بڑے دعوے کئے تھے، پرویز رشید تو کہہ رہے تھے کہ راجہ صاحب ان لوگوں کی ضمانت ضبط کروا دیں گے، سنجرانی کے ووٹ تو توقع سے بھی زیادہ نکلے۔ ان کے 57ووٹوں کے بارے میں قیوم سومرو نے ایک ہفتہ پہلے میڈیا کو بتا دیا تھا ، میاں صاحب آپ اپنی پارٹی اور اپنے اتحادیوں پر غور کریں، کس نے کس کو ووٹ دیا اگر نہ پتہ چلے تو چودھری پرویز الٰہی سے پوچھ لیں، ان کو بھی پتہ ہے کہ کس طرح 57ووٹ سنجرانی کو ملے کیونکہ کچھ لوگ ماضی میں ان کے ساتھ تھے، آپ شکرکریں کہ سینیٹ کا پنجاب آپریشن آصف علی زرداری نے قیوم سومرو کے حوالے نہیں کیا تھا، اگر یہ آپریشن بھی ڈاکٹر قیوم سومرو کے حوالے کردیا جاتا تو ن لیگ پنجاب سے دو تین سیٹیں اور ہار جاتی۔ جس دن آپ نے رضا ربانی کا نام پیش کیا تھا تو اسی سے ثابت ہوگیا تھا کہ آپ کےپاس ووٹ پورے نہیں ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے ایک روز پہلے پیپلز پارٹی کے تیس سینئر رہنمائوں نے کوشش کی کہ رضا ربانی کو نامزد کردیا جائے، مقدمہ آصف علی زرداری کے سامنے گیا تو اکیلا قیوم سومرو صادق سنجرانی کے لئے ڈٹ گیا، ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا پی پی کا صرف ایک رہنما تھا، اس رہنما کا نام راجہ پرویز اشرف ہے، راجہ پرویز اشرف نے تین بڑی وجوہات بیان کیں جن کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کو صادق سنجرانی کو نامزد کرنا پڑا، پارٹی رہنمائوں کو اس مرحلے پر قیوم سومرو نے بتا دیا تھا کہ ’’ہم 57 ووٹ لیں گے کیونکہ میں نے حساب کتاب کر رکھا ہے۔‘‘ الیکشن کے بعد بلاول بھٹو زرداری بھی قیوم سومرو کو شاباش دے رہے تھے اور ان کی مخالفت کرنے والے رہنمائوں کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔ سینیٹ کے اس کرشماتی الیکشن کے موقع پر میاں صاحب کو یاد تو آیا ہوگا کہ وہ 1988ء میں نگران وزیر اعلیٰ بھی تھے اور الیکشن بھی لڑ رہے تھے ، بس یہی ہوتی ہے کرشماتی سیاست ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین