• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نجکاری، مضرصحت
جیسے اسٹفن ہاکنگ نے جاتے ہوئے آخری وصیت میں کہا کہ کسی اجنبی مخلوق سے رابطہ نہ کرنا، ہم اپنی زندگی میں یہ گزارش کرتے ہیں کہ نجکاری نہ کرنا یہ ہماری قومی صحت کے لئے مفید نہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم ترقی کی ہر منزل کو چھو جانے والی قوموں کی اتباع کریں۔ انہوں نے بھی پہلے ادارے محکمے اپنی تحویل میں رکھے اور جب ایک معیار قائم کردیا تو پھر نجکاری کی اور پرائیویٹ سیکٹر کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل بنا دیا کہ وہ کسی طور بھی اس سے سرمو انحراف نہ کرسکے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے بجائے اس کی بحالی پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ’’باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ جس کے باعث باہر کی دنیا کے لوگ بھی پی آئی اے پر سفر کوترجیح دیتے تھے اور اب اس کا نام تک کوئی سننے کا روادار نہیں۔ ہمارے ہاں بالعموم چیزوںکو بے کار کیا جاتا ہے تاکہ ہم گلی میں آواز دینے والے کباڑیے کو اونے پونے بیچ کر اس کے چھوہارے کھالیں، ریاستی کمائو اداروں کو اس لئے بھی ناکام بنایا جاتا ہے کہ ہمارا اسی طرح کا اپنا کوئی کاروبارچلے۔ آئے دن پی آئی اے میں مختلف اقسام کی بےاعتدالیوں کی اسٹوری چھپتی ہے اور اب تو شاید حکومت تل گئی ہے کہ پی آئی اے کی نج کاری ہر صورت کرنا ہے۔ہم سمجھتے ہیں اپنے کسی بھی بیمار ادارے کو بیچنے کے بجائے اسے بہتر بنائیں۔ اس کا جدید ترین علاج کرائیں تو یہی مُردہ اُٹھ کھڑا ہوگا اور ایک بار پھر پاکستان ایئرلائنز دنیا میںفیورٹ قرار پائے گی اور قوم کے لئے اچھا منافع کمائے گی۔ ہم نے اگر ٹیلیفون کے محکمے کی جزوی نج کاری کی ، تو کیا وہ بہتر ہو گیا؟ آج یہ عالم ہے کہ حال ہی میں، میں کہ پی ٹی سی ایل کا صارف ہوں ، محض اس وجہ سےاپنا انٹرنیٹ کٹوا دیا کہ تین برس اس کے ٹھیک ہونے کی امید میں گزار دیئے، شکایات کے انبار لگا دیئے، منتیں ترلے کئے، لائن مین تک نے ہمیں چکر دیئے رکھا۔ لاہور کے چند ایک مخصوص علاقوں کے علاوہ کہیں بھی انٹرنیٹ کی اسپیڈ، ورکنگ تسلی بخش نہیں۔ ہم یہاں یہ بھی کہتے چلیں کہ نوٹس لیا جائے کہ صوبائی دارالحکومت کی عوامی بستیوں میں پی ٹی سی ایل نے کیوں بعض افراد کو 100یا200جی بی یکمشت بیچ کر نئی دکانیں کھلوا دی ہیں۔ یہ افراد علی الاعلان لوگوں کو کنکشن فروخت کر رہے ہیں۔ آخر اس کی اجازت جی ایم نے کیوں دی؟
٭٭٭٭٭
اگر میڈیا نہ ہوتا
خدا کا شکر ہے کہ میڈیا ہے۔ اگرچہ چاند کی طرح اس میں بھی کچھ داغ ہیں مگر چاند تو پھر بھی چاند ہے اور میڈیا پھر بھی میڈیا۔ آج اگر پاناما پیپرز کی خبر جنگ میڈیا گروپ کے عمرچیمہ بریک نہ کرتے اور بین الاقوامی صحافت میں نام نہ رکھتے تو کیا ہم ایک طویل خواب سے بیدار ہوتے؟ خبر ہے کہ نیپال کا چیف جسٹس غلط تاریخ پیدائش دینے پر برطرف کر دیا گیا۔ انصاف خود اپنے آپ کو بھی معاف نہیں کرتاچہ جائیکہ وہ بے انصافیاں، بےاعتدالیاں کرنے والوں کو عام معافی دے دے۔ ہمارےہاں ایک عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور اب یوں لگنے لگا ہے کہ انصاف جاگ اٹھا ہے لیکن کوئی منصف بھی اس کی دسترس سے باہر نہیں ہونا چاہئے۔ جب اقدار پر افراد کو فوقیت حاصل ہوگی تو ہر شعبہ زوال پذیر ہوگا۔ اس دورِ ناہنجار میں یا زمانہ ٔ پُرآشوب میں اگر میڈیا بھی نہ ہوتا توسمجھ لیں کہ جیسے چوروں کی بستی میں دکان پر دکاندار موجود نہیں آج میڈیادنیا بھر میں غلط کام کوبے نقاب کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔آئی ٹی ٹیکنالوجی کا جتنا صحیح استعمال میڈیا کر رہا ہے کوئی اورشعبہ نہیں کر رہا بلکہ وہ اسے مک مکا کے لئے کام میں لاتا ہے۔ نیپال میں ایک صحافتی ادارے نے یہ انکشاف کیا کہ چیف جسٹس جعلسازی اور جھوٹ کامرتکب ہوا اور پھرمنصف ِ اعلیٰ نے بھی گھر جانے میں دیر نہیں کی۔ لفظ ’’کیوں‘‘ زبان پر نہ لایا۔ کیا ہمارے ہاں سے چوری سینہ زوری ختم نہیں ہوسکتی کہ یہ کام بھی میڈیا ہی کو کرنا ہوگا۔ آج جو ایک تبدیلی آپ دیکھ رہے ہیں، وہ تبدیلی کے دعویداروں کے باعث نہیں، میڈیا کی عطا ہے۔ معاشرے کو ایک مثبت اور مفید خوف لاحق میڈیاہی نے کیا ہے۔ اب ہر کالی بھیڑ کو ڈر ہے کہ کیمرہ قلم اس تک کسی وقت بھی پہنچ سکتا ہے۔ میڈیا کی اہمیت اور قدر کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اسے آزادانہ کام کرنے دیا جائے، رسائی دی جائے، عوام تعاون کریں سب اچھا ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭
اسے بھی پڑھئے!
O۔ مودی کے 60 فیصد ٹوئٹر فالوئورز جعلی نکلے۔
ہمیں بھی اپنی ’’منجی تھلے ڈانگ‘‘ پھیر لینی چاہئے۔
O۔ خورشیدشاہ:ہمارا دربار صرف جمہوریت، کسی دوسرے پر نہیں جھکے۔
معاف کرنا ہمارے ہاں جمہوریت چند خانوادوں کی قید بھگت رہی ہے۔
O۔ کراچی میں نوجوان ’’آئس‘‘ کے نام سے مشہور نشے کے عادی ہونے لگے۔
نوجوانوں کے لئے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہوتی تو وہ اس برف کے نیچے کیوں آتے جو بندے کو آئس کولڈ بنا دے۔ نائس گولڈ بھی تو بنایا جاسکتا ہے۔ پر کتھوں؟
O۔رحیم یار خان :دودھ میں چھپکلی گر گئی۔ باپ، بیٹا اور پوتا جاں بحق
کہیں ہمارے د ودھ میں بھی چھپکلی تو نہیں گرگئی کہ جس شعبے کو چھیڑو بےجان
O۔ انسان کی اچھی سوچ رحمٰن اور بری شیطان کی پیداوار ہے۔ شیطان بھی معلم ملکوت تھا۔ اپنی مرضی سے شیطان بنا۔ ہمیں سوچ لینا چاہئے کہ کس کی سوچ اپنانی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین