• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احسان دانش، طفیل ہوشیارپوری، مرزا ادیب اور نسیم حجازی کے دور میں تحصیل دیپالپور ضلع ساہیوال کے چھوٹے گائوں سوجیکے میں مولانا محمد صدیق چشتی کے ہاں 10جون 1914کو محمد نور اللہ پیدا ہوئے۔ مجتہدانہ انداز فکر کے حامل درویش صفت انسان ’’اجتہاد‘‘ کے زبردست حامی، فقیہ اعظم۔ محمد نور اللہ وہ عظیم انسان تھے، جنہوں نے آج سے 50سال پہلے امام ابوحنفیہ کا جانشین ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے، انتقال و عطیہ خون، اعضاء کی پیوندکاری، ٹیسٹ ٹیوب بے بی، بچیوں کی تعلیمتصویر کا بنانا، روزہ میں انجکشن، لائوڈ اسپیکر کا استعمال، انگریزی اور ہومیوپیتھی میڈیسن کا استعمال، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز میں نماز، رویت ہلال کمیٹی کا چاند دیکھنا، بلغاریہ اور ڈنمارک میں نمازیں، قطب شمالی اور قطب جنوبی کا شرعی حل بتایا ،وہ آج کے مشائخ و علماء کی طرح گردن اٹھا کر نہیں، بلکہ گردن جھکا کر چلنے والے تھے۔ انہوں نے صرف بیان بازی پر اکتفا نہیں کیا، کیونکہ اسوقت بھی بداخلاقی، بدکرداری، بدتہذیبی، بدنظمی اور بدتمیزی کے نفرت آمیز رویئے والے سماج و اخلاقیات دشمن عناصر موجود تھے، وہ اپنی بدزبانی کو چھپانے کیلئے دین فروشی کے لبادے میں اسلام کا استعمال کرتے تھے۔ جب ماڈرن ایشوز پرعلماء بات کرنے سے ڈرتے تھے، تو مخالفت کی آندھیوں، بدتمیزی کے رویوں، دھمکیوں کے طوفانوں کے سامنے فقیہ اعظم ’’اجتہادی دبدبہ‘‘ کیساتھ جرات و استقامت کیساتھ بات پر ڈٹ جاتے۔ مجسمہ فقاہت و ذہانت میں مقامِ فطین پر تعینات، اس ہونہار نے1944 میں دورہ حدیث کی کلاس شروع کی، تو علم کی پیاس بجھانے والوں ’’میں‘‘ ان کے بنیادی استاذ اور والد گرامی مولانا محمد صدیق بھی کلاس میں تشریف فرما ہوتے۔ 1948میں صدرالفاضل نعیم الدین سے قادریہ مکیہ سلسلہ میں بیعت اور خلافت کی اجازت لینے والے، اس فقیہ اعظم میں علمی تڑپ کے مطالعہ نے علمی وسعت اتنی بڑھا دی تھی کہ ہمیشہ جدید مسائل کو قدیم قلم سے حل کر دیتے، اس کی دلیل فتاویٰ نوریہ کی 6جلدیں گواہ ہیں۔ ہمیشہ فتویٰ جاری کرتے وقت قرآن، سنت، حدیث کے علاوہ دیگر مذاہب کی الہامی کتب کا ضرور مطالعہ کرتے۔ فتاویٰ نوریہ میں 926فتاویٰ جات ہیں، جن میں 3600صفحات، ایک صفحہ میں 20لائنیں، فی لائن24الفاظ، ایک صفحہ میں تقریباً 480الفاظ، یوں 1728000(سترہ لاکھ اٹھائیس ہزار) الفاظ کا مجموعہ ہے، فتاویٰ میں 655عوام الناس، 271علماء ودانش واران طبقہ کو جوابات دیتے ہیں یعنی چوتھائی حصہ فتاویٰ نوریہ علماء کی رہنمائی کرتا ہے جس میں ہزاروں آیات احادیث حوالہ جات کیساتھ موجود ہیں، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب پر حواشی کے چھ سو سے زائدصفحات اور تین لاکھ سے زائد الفاظ اور دیگر 28کتابیں ہیں۔ فقیہ اعظم نے دن رات دروس قرآن وحدیث بلاناغہ دئیے، وہ مقامی مسائل کے موقع پر حجرہ سے نکل کر رسم شبیری ادا کرتے۔ ملکی و عالمی مسائل پر ہمیشہ تحریر اور تقریر کے ذریعے سیاستدانوں کی رہنمائی فرماتے، فقیہ اعظم نے 23مارچ 1977کو جب بڑے جلوس کی صورت میں نعرہ قلندرانہ کیساتھ گرفتاری دی تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے خطرناک قسم کے قیدیوں کو جرائم کی دنیا چھڑانے کیلئے ’’بستہ مصطفیٰ ؐ‘‘ سے بخاری شریف کی کلاس شروع کی۔ ملاقاتیوں سے جیل سپرنٹنڈنٹ نے کہا، ہم تو ساری عمر چوروں، ڈاکوئوں، قاتلوں، بدمعاشوں، بھتہ خوروں، لٹیروں، ظالموں اور فاسقوں کی ملاقات کراتے رہے ہیں آج ہماری خوش بختی ہے ہم انکی خدمت کررہے ہیں ’’مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف صبح کے وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوائوں میں بھی حدیث کی کلاس لگا کر بیٹھتے اور عرب وعجم کے عشاقان مصطفی ﷺکے سینے قرآن وسنت کے نور سے منور کرتے۔
1970میں میاں منظور احمد وٹو پہلی بار صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں امیدوار بنے، ان کا والد قادیاتی تھا۔ لوگوں نے اعتراض کیا،تو میاں یاسین وٹو (جو قومی اسمبلی کے امیدوار تھے) اور دیگر قائدین مسلم لیگ اور علاقہ کے معززین حضرات کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے میاں منظور وٹو سے حلفیہ بیان لیا کہو ’’میں صدق دل سے حضور پرنور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا سچا اور آخری نبی مانتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ ’’مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹا ہے اور جو کوئی مرزا قادیانی کو مصلح، مجدد، یا نبی مانے وہ مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘۔ سابق وفاقی وزیر اور رہنما پی ٹی آئی پیر سید صمصام شاہ بخاری کے بقول جب میاں منظور وٹو کے والد فوت ہوئے، تو میاں منظور وٹو نے اپنے والد کا جنازہ اس بناء پر نہیں پڑھا تھا کہ وہ قادیانی تھے۔ فقیہ اعظم سے عام لوگوں کے علاوہ خواص جن میں مولانا عبدالغفور ہزاروی، جسٹس پیر محمد کرم شاہ، جسٹس شجاعت علی قادری، صاحبزادہ فیض الحسن، مولانا غلام علی اوکاڑوی، مفتی غلام سرور قادری اور دیگر نے سوال لکھ کر فتویٰ لئے، جبکہ 1976میں حج کے موقع پرعرفات میں مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری اور پیرسید حسین الدین نے آپ کے فتویٰ کی روشنی میں ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں۔ اکثر شاگردوں کو فرماتے ’’آپ نے دین کے لئے کیا کیا ہے‘‘ طلباء کی دستار بندی کے موقع پر فرماتے’’ معاشرے میں مشکلات نہیں آسانیاں پیدا کرنا‘‘ شرعی سزائوں کے نفاذ میں حکومت کی رہنمائی ضرور کرتے ،لیکن ’’سزا دینا‘‘ ذاتی نہیں، بلکہ اسلامی حکومت کا فریضہ قرار دیتے تھے۔ فرماتے ’’بے علم صوفی شیطان کا مسخرہ ہوتا ہے۔‘‘
فقیہ اعظم نے27 تا30 اپریل 1946آل انڈیا سنی بنارس میں ناصرف شرکت کی، بلکہ متحرک کردار اد اکیا۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے معرکوں میں ہمیشہ مسلم لیگ کے کیمپ میں بیٹھے نظر آتے۔ فقیہ اعظم تحریک ختم نبوتؐ 1953اور1974میں متحرک رہے۔ 1948میں ملتان میں بننے والی جمعیت علماء کے تشکیلی اجلاس میں شریک تھے، اسی بنا پر باوقار، بارعب، پرکشش شخصیت کے مالک 1977میں قومی اتحاد کے ٹکٹ پرجے یوپی کی طرف سے الیکشن میں حصہ لیا۔ آپ کے شاگردوں میں مولانا عارف نوری، مولانا احمد علی قصوری، علامہ ضیاء الحبیب صابری، مولانا محمد شریف نوری قصوری، پیر منظور احمد شاہ اور مفتی عبدالرسول منصور جیسے لوگ موجود ہیں، لوگ انہیں فقیہ اعظم کہتے ہیں میں انہیں امام الہند کہتا ہوں، دین فروشی اور واعظ فروشی کے شدید خلاف، علامتی صوفی نہیں، بلکہ حقیقی صوفی جمعہ 15اپریل 1983کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور جو لاہور سے140، کراچی11000، کوئٹہ855، پشاور618 اور اسلام آباد 550سے زائد کلومیڑ دور ہے، آپ نے دیہاتی علاقے میں بیٹھ کر اور بغیر آئی ٹی سہولیات کے وہ کام کیا، جو شہروں میں موجود مدارس ہونے کے باوجود، وہ کچھ نہیں کر رہے جو انہیں کرنا چاہئے، یہاں میٹرک سے لیکر ایم اے کی کلاسز بھی ہوتی ہیں۔ 50سے زائد دینی مدارس کی شاخوں اور سالانہ کروڑوں روپے بجٹ والے اس ادارہ میں، آپ کے علمی، اعتقادی اور ادبی دولت سے لبریز پیر مفتی محب اللہ نوری کی صدارت میں آپ کا عرس اور جلسہ دستار فضیلت 19،20 مارچ کو بصیرپور میں ہورہا ہے۔ تحریک لبیک کے مقابلے میں بنایا جانے والا ’’نظام مصطفیؐ اتحاد الائنس‘‘ بھی سستی اور کاہلی کا شکار ہو گیا ہے۔ اس اتحاد کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اتحاد کے کنوینر حامد سعید کاظمی نے پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے اس بنا پر ممکن ہے تحریک پاکستان کے ٹاپ سطح کے متحرک رہنما امیر ملت پیر سید جماعت علی کے جانشین پیر سید منور حسین آنے والے چند دنوں میں ’’مشائخ کے سیاسی اتحاد‘‘ کا اعلان کردیں۔ آخر میں جامعہ نعیمیہ میں انتہائی افسوس ناک واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور ن لیگ کی قیادت کو مشورہ دوں گا کہ’’ وہ ناموس رسالت و ختم نبوت جیسے حساس ایشوز پر اپنے موقف کی وضاحت کرلیں۔ اس کا الیکشن، باقی زندگی اور آخرت میں فائدہ ہوگا کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ الیکشن 2013میں جس طرح پی پی پی اور اے این پی کھل کر جلسے نہیں کر پائی تھی، آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو۔ ’’ہر دکھ درد کی دوا بس درود مصطفیؐ 80بار ضرور پڑھنا‘‘۔کیونکہ باکمال اور لاجواب شاعر پیر محب اللہ نوری عرض کرتے ہیں۔
سرکار ﷺکی خدمت میں درودوں کا ہدیہ
آلام و مصائب کا مداوا نظر آیا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین