ترقی یافتہ مغربی معاشروں میں سیکولر لبرل ازم اور رجعت پسند رسوم و روایات کے حوالے سے بالخصوص ایسی رسوم جن پر مذہبی رنگ چڑھا ہوا ہو، ایک چیلنج سمجھا جارہا ہے اور یہ سوال کھڑا ہے کہ اس ملٹی کلچرل ازم اور کثیرالمذاہب سوسائٹی کو کیسے چلایا جائے۔ مذہبی آزادی میں افراد کو اپنا مذہب ماننے، عقیدہ رکھنے اور اس پر عمل کرنے کو تو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد دوسروں کو گالیاں دینے کا لائسنس جاری کرنا نہیں ہے۔ نہ ہی یہ آزادی دوسروں پر تنقید تفرقہ یا دوسرے جسموں پر کنٹرول کی اجازت دیتی ہے۔ گزشتہ ہفتے آئس لینڈ کی پارلیمنٹ میں رسم ختنہ پر قانونی پابندی عائد کرنے کا بل پیش ہوا ہے جسے یہودیوں اور مسلمانوں نے مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں بھی بچوں کو سکولوں میں سیکس ایجوکیشن کے حوالے سے مذہبی آزادی پر حملے کے زمرے میں دیکھا جارہا ہے۔ ان میں اکثر مباحث جوکہ مذہبی آزادی کے گرد گھومتے ہیں وہ ان لوگوں کی جانب سے شروع کیے جاتے ہیں جو صرف اپنی آزادی کی بات کرتے ہیں یا دوسرے انسان کی آزادی پر اپنا قبضہ و تسلط قائم کرتے ہیں۔ یہودیوں میں رسم ختنہ اللہ اور حضرت ابراہیم کے مابین مذہبی عنصرCovenantکے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی یہ رسم ایک مذہبی فریضے کے طور پر رائج ہے، لیکن یہاں مغربی ممالک کے معاشروں کے کچھ حصے اس رسم پر بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مذہبی آزادی والدین کے حق کے طور پر تو مانی جاسکتی ہے، لیکن بچہ جوکہ ان کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ اس کے جسم کی حفاظت بھی والدین یا دوسروں پر ہوتی ہے۔ ایسے میں اس کے جسم پر ایسی تبدیلی کا رونما ہونا جس میں اس بچے کی رضا و رغبت کا کوئی عمل دخل نہ ہو بچے کے بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی بحث گزشتہ عرصے میں جانوروں کو ذبح کرنے کے حوالے سے پورے یورپ اور برطانیہ میں موجود رہی ہے جس میں مسلمانوں اور یہودیوں کو جانوروں کو ذبح کرنے سے پہلے بے ہوش کرنے سے استثنیٰ ملا تھا۔ یہ استثنیٰ جانوروں کی بہبود کے قوانین میں سے اخذ کیا گیا تھا۔ جس طرح سے پاکستان میں جانوروں سے بے رحمی کے برتائو کے خلاف قوانین موجود ہیں تاہم وہاں ذبیحہ کے حوالے سے کوئی بحث زیر گردش نہیں ہے، کیونکہ وہاں پورا معاشرہ ان رسوم و طریقہ ہائے کار کو مذہبی حق کے طور پر مانتا اور عمل کرتا ہے لیکن آئس لینڈ میں ہونے والی قانون سازی نے یورپ کے قانون ساز اداروں کو اس قانون سازی کی جانب متوجہ کیا ہے۔ آئس لینڈ جوکہ2010ء میں کرپٹ لیڈر شپ کی وجہ سے دیوالیہ ہوگیا تھا، جوکہ دنیا بھر کے کالے دھن کی محفوظ جنت تھی۔ اس کے دیوالیہ پن میں درجنوں ملکوں کے کھربوں ڈالر ڈوب گئے تھے۔ وہاں اب اس قسم کے نان ایشو کو لے کر لڑکیوں کے ختنے پر پابندی کے ساتھ لڑکوں کے ختنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ لڑکیوں کے ختنےFemale Genital Mutilationکو تو یورپ میں پہلے ہی غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے۔ آئس لینڈ حکومت کی جانب سے اس کا توجیحی بیان جاری کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق بے شک والدین کو اپنے بچوں کو اپنے عقائد کے مطابق پالنے پوسنے کا حق حاصل ہے، لیکن جہاں یہ حق دوسرے جسم کے حقوق سے متصادم ہو وہاں اس کی حدود ختم ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اسے کسی دوسرے کے جسم پر تبدیلی قائم کرنے کا حق نہیں ہے، جس میں بقائم ہوش و حواس دوسرے جسم کی رضامندی شامل نہ ہو۔ والدین اپنے انسانی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے اپنا مذہب یا عقیدہ رکھنے کا حق رکھتے ہیں، لیکن یہ عقائد دوسرے فرد پر مسلط کرنے کا حق نہیں دیتا۔ اولاد دوسرا فرد ہے۔ جس کی اپنی رضا و رغبت ضروری ہے۔ مغربی دنیا کے مختلف حلقوں میں اس قسم کی مباحث پارلیمان میں اور باہر چلتے رہتے ہیں۔ ایسے موضوعات پر بات چیت تیسری دنیا کے ممالک میں ابھی ناپید ہے۔ پاکستان میں تو ابھی اس بات پر بحث اور قانون سازی ہورہی ہے کہ سکولوں میں ڈانس کی کلاس ہونی چاہئیں یا نہیں۔ ایک صوبہ اس کی اجازت دیتا ہے تو دوسرا اس پر پابندی لگاتا ہے۔ ہم تو آرٹ اور کلچر کے ورثہ کے بارے میں بھی ابھی کلیئر نہیں ہیں۔ ہم ابھی مخلوط تعلیم کے حوالے سے کلیئر نہیں ہیں۔ آئے دن مذہبی جماعتیں اس کے خلاف قراردادیں منظور کرتی رہتی ہیں اور جلوسوں میں نعرے بازی کرتی رہتی ہیں بچوں کی سیکس ایجوکیشن کے حوالے سے اسے مذہب اور اخلاقیات گری ہوئی تعلیم قرار دے کرہم آنکھیں بند کرلینے کو درست مانتے ہیں۔ مغرب میں کسی بھی ایشو پر کھلی بحث کو کمتر نہیں جانا جاتا۔ بلکہ ریڈیو اور ٹی وی، اخبارات اسے زیر بحث لاتے ہیں۔ ہمیں رسم ختنہ سمیت ایسے موضوعات پر بحث کو فقط مغربی دنیا کی صوابدید پر نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ دلیل کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے۔ تاکہ کسی بھی قانون سازی میںConcensusبرقرار رہے۔