• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امن پسند سابق وزیراعظم
سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے:لڑائی کے حق میں نہیں ملک آئین کے مطابق چلنا چاہئے، جب گیلانی صاحب کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تو انہوں نے اتنی لڑائی کی کہ سارا ملک سر پر اٹھا لیا، نواز شریف نے بہت سمجھایا کہ اب عافیت اسی میں ہے کہ چپکے سے گھر چلے جائو، اور وہ چلے گئے، نواز شریف سے کیا کسی نے کہا کہ بس اب چپکے سے گھر چلے جائو خیریت اسی میں ہے، اس کے باوجود انہوں نے عدلیہ کے فیصلہ کو بسرو چشم تسلیم کیا،اور گھر چلے گئے، راستے میں ان کے جانثاروں نے جگہ جگہ استقبال کیا، بلاشبہ میاں صاحب ہماری سیاسی تاریخ میں قائداعظم کے بعد سب سے بڑے لیڈر ہیں، اور اس ملک میں ان کے جانثار ایک ہم ہی نہیں ہزاروں ہیں، انہوں نے کبھی کسی سے لڑائی نہیں کی، صرف گلہ کیا، مگر اب تو ایسا زمانہ آ گیا کہ؎
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
مریم نواز بھی اپنے عظیم والد پر گئی ہیں، مجال ہے کہ کبھی لڑائی کے حق میں ایک لفظ بھی کہا ہو، عمران کو لاڈلا بھی انہوں نے ہی کہا، ورنہ اس دور پُر آشوب میں کون کسی کو لاڈلا جانتا ہے، انہوں نے ملک میں عدل کی بات کی، عدلیہ کی بحالی میں کالا کوٹ بھی پہنا، اور سب سے بڑا کارنامہ ایٹمی دھماکے، اگر یہ نہ کئے ہوتے تو مودی جو بظاہر ان کا یار بنا پھرتا ہے اب تک پاکستان پر چڑھائی کر چکا ہوتا، اسی طرح سی پیک نے تو گویا ہمارے سارے زخم سی دیئے، کیونکہ جب یہ منصوبہ مکمل ہو گا تو غربت نامکمل رہ جائے گی، ہم قلم مزدور اور کیا کر سکتے ہیں اس کے سوا کہ ڈھونڈ لائو کوئی لیڈر میرے لیڈر کے برابر۔
٭٭٭٭
قرضے دیدو ،پی آئی اے اور اسٹیل ملز مفت لے لو!
مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے:قرضے دے دو، پی آئی اے اور اسٹیل ملز مفت لے لو، کیسی دریا دلی ہے کہ قرضہ جو واجب الادا ہے دے دو سب صغیرہ کبیرہ گناہ معاف کرا لو، اور بطور انعام پی آئی اے اسٹیل ملز مفت لے لو، صحافی نے کہا یہ آپ کیا اعلان کر رہے ہیں، مشیر خزانہ نے فرمایا مذاق کر رہا تھا، حالانکہ پہلے بڑی سنجیدگی سے اعلان کر دیا اور چھاپنے کے لئے بھی کہہ دیا، کہئے یہ ہم حکومتی دانش کے کس ’’ترقی یافتہ‘‘ دور سے گزر رہے ہیں، یہ اور اس طرح کی اور کئی باتیں، فیصلے کسی شخص کی وصیت معلوم ہوتے ہیں، کہ میں تو جا رہا ہوں جس کا جو جی چاہے مفت اٹھا لے اور چلتا بنے، پنجابی میں شاید اس کو ہی کہتے ہیں ’’انی پئی ہوئی اے‘‘ شاہزیب خانزادہ نے کیا خوب بات کی ہے کہ لوگ سمجھ رہے ہیں حکومت کچھ کرے نہ کرے، چیف جسٹس مسائل حل کرا دیں گے، اول تو ایسی سوچ ہی غلط ہے، لیکن یہ بھی خانزادہ صاحب مقام عبرت ہے کہ آخر لوگ کیوں ایسا سوچنے لگے ہیں؟ اُدھر آئی ایم ایف نے ’’تراہ کڈھ‘‘ دیا کہ زر مبادلہ ذخائر 12.8ارب ڈالر رہ گئے، پاکستان بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے ٹیکس ختم اور بجلی، گیس مہنگی کرے، شاید یہی وجہ ہے کہ مفتاح اسماعیل نے چھابے میں پی آئی اے، اسٹیل ملز رکھ کر آواز لگا دی یہ دونوں مفت لے لو قرضہ دے دو، اکثر اشتہار آتے ہیں کہ ایک فریج خرید لو ساتھ ایک اوون مفت لے لو، یہ مشیر مذاق کررہے تھے یا بعد میں مذاق قرار دے دیا کہ یہ کیا آواز لگا دی بہرحال پنجابی کہاوت یاد آ گئی ’’ویلیاں مسیتاں تے گالہڑ امام‘‘ ابھی کل کی بات ہے ایک ریڑھی والا صدا لگا رہا تھا ایک دھڑی پیاز لے لو ایک کلو کھیرے مفت لے لو، بہرحال آخری بات کہ اچھی خاصی ن لیگ کی حکومت چل رہی تھی، کہ ایک صحافی باہر سے پاناما اٹھا لائے اب یہ واویلا کیسا؟ حکومت جیسی تھی کھڑی نہیں تھی چل رہی تھی، شاید کیٹ واک کرنا نہیں جانتی تھی۔
٭٭٭٭
ٹانگ کھینچ رویئے
جیسے ہمارے باقی تمام کام اعمال صالحہ ہیں، کسی کو قسمت نصیب اور اپنی صلاحیت سے کوئی اعلیٰ مقام، پوزیشن یا کامیابی مل جائے، ہم سب ’’صالحین‘‘ دودھوں کے دھلے ہوئے اس کی تھکی ہوئی ٹانگیں دبانے کے بجائے انہیں جوں کھینچنے لگتے ہیں کہ اسے بھی اس قصر مذلت میں گھسیٹ لاتے ہیں جس میں خود آسودہ ہوتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہماری لیگ پلنگ سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا، مگر نامہ اعمال کو نامہ دلبر بنانے کے بجائے نامۂ الزام بنا کر اپنے بائیں ہاتھ میں تھام لیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمارا معاشرہ ایسے افراد سے خالی نہیں جو تمنائے جزا سے بے نیاز سب کا بھلا سب کی خیر مانگتے ہیں، تعاون کرتے ہیں جائز کاموں میں، میٹھا بولتے ہیں کڑوے بولوں کے جواب میں، میرے ایک نہایت محترم قاری محمد نور الہدیٰ کو کیسے قلم انداز کر سکتا ہوں کہ ہر روز دعائوں کے ساتھ میری چھوٹی سی اسکرین پر دعا گو بن کر ابھرتے ہیں اللہ جل جلالہٗ ان کی اس نیکی کا انہیں بڑا ہی اجر عطا فرمائے اور انہیں دین دنیا میں سرخروئی عطا فرمائے، ہم تو ہر روز ایک آواز لفظ بدل بدل لگاتے ہیں کہ
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
سنا ہے دفاتر میں لیگ پلنگ بہت ہوتی ہے ، اور اب تو لیگ پلنگ بھی عام ہے، بہرحال ٹانگیں کھینچنے کھنچوانے والے سبھی ہدایت پائیں، یہ جو ٹویٹ پر کیچڑ اچھال مہم جاری ہے یہ دستاویزی گناہ ہے، اس سے دور رہنا، چپ رہنا بہتر، کوئی نہ بھولے کہ یہ دنیا دارالمکافات ہے ہمیں حتمی سزا سے پہلے انٹیرم سزا ملتی رہتی ہے، مگر ہم سنبھلتے نہیں سنورتے نہیں، لہجوں میں فرصیت بھر کر اپنے ہی گناہوں کے نیل میں غرق ہو جاتے ہیں، عاجزی ہی انسان کا اختیار ہے مگر ناز اس پر بھی روا نہیں، کہ دور اس سے ریاء نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین