• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں خلافِ توقع میاں نواز شریف کی جماعت اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہوئی اور تحریک انصاف پی پی پی اور آزاد اراکین کے اتحاد نے دونوں عہدوں پر یہ مقابلہ جیت لیا۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے بعد نواز شریف کی شکست کو ان کی سیاسی اننگز کا تقریباً خاتمہ ہی قرار دیا جارہا ہے تاہم میں ایک ادنی سا طالبعلم اس سارے معاملے کو بالکل مختلف انداز سے دیکھتا ہوں۔
دوہزار چودہ کے دھرنوں کے دنوں میں عمران خان اور ان کی پارٹی میڈیا کی تمام تر توجہ حاصل کررہی تھی اور جس وقت بھی آپ کوئی نیوز چینل لگائیں آپ کو عمران خان سے متعلق ہی خبر نظر آتی تھی جس کے باعث پاکستان کے بچے بچے کو عمران خان کی کی گئی تقریریں رٹ گئیں اور اُن کی کہی گئی بات لمحوں میں زبان زد عام ہونے لگی کیونکہ پاکستان کے عوام کا ایک مزاج ہے کہ وہ حکومت مخالف بات یا خبر پر جلد اور آسانی سے یقین کرلیتے ہیں اور اسی طرح کی خبر دیکھنے اور پڑھنے میں زیادہ تر دلچسپی رکھتے ہیں لہذا عمران خان اور میڈیا نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور زیادہ سے زیادہ حکومت مخالف بیانات دئیے اور دکھائے تاکہ ریٹنگ کے اس دور میں کسی بھی طرح پیچھے نہ رہا جائے۔ نواز شریف کی حکومت کے لیے یہ ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرگیا کیونکہ ٹی وی چینلز اور اخبارات نے حکومت کے ترقیاتی کاموں اور دیگر خبروں کو نظر انداز کردیا تھا جس کی وجہ سے حکومت مخالف فضا تیزی سے پروان چڑھ رہی تھی کیونکہ حکومت کا موقف عوام الناس تک نہیں پہنچ رہا تھا جب کہ حکومت مخالف جھوٹا سچا پروپیگنڈہ دن میں دس دس دفعہ ٹی وی پر دکھایا جاتا تھا ۔ یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا اور حکومت کی مقبولیت آسمان سے زمین کی طرف جانے لگی اس لیے نہیں کہ حکومت کچھ غلط کررہی تھی بلکہ اس لیے کہ وہ جو کچھ بھی اچھا کررہی تھی اُس کی ترویج میں حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا تھا اور اگر کچھ چینل حکومت کے اچھے کاموں کی خبر دے بھی رہے تھے تو انھیں شدید ترین رد عمل کا سامنا کرنا پڑرہا تھا لہذا اس دباؤ کے باعث زیادہ تر چینلز نے نواز شریف حکومت کی اچھی خبروں کو چھُپانا اور مخالف خبروں کو زیادہ سے زیادہ نشر کرنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ کسی بھی تدبیر سے رُک نہ سکا اور نواز شریف حکومت کے خلاف ان خبروں کا مقابلہ تنہا مریم نواز شریف اپنے ٹوئیٹر ہینڈل سے کرتی رہیں۔ جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا تھا نواز شریف کی حکومت کی تشویش میں اضافہ ہورہا تھا کیونکہ بہت کچھ اچھا کرنے کے باوجود صرف چند غلطیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا تھا اسی دوران پانامہ لیکس نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور حکومت مخالف خبریں اور شدت سے عوام الناس تک پہنچائی جاتی رہیں اور ملک کے وزیر اعظم کو ایک وِلن بناکر پیش کیا جاتا رہا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جو بھی ان کے خلاف بات کرتا ہے وہ بہت بہادر نڈر اور ہیرو ہے اس فضا کو میڈیا سوشل میڈیا اور جلسے جلوسوں میں ترویج دی گئی۔
اس تمام صورتحال میں حکومت اور سیاست کے تسلسل کو بچانے کے لیے نواز شریف کو ایک ایسے منفرد نظریے کی ضرورت تھی جہاں سے سب کچھ واپس اُن کے حق میں پلٹ جائے۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ اُن کی عمر تقریباً ستر سال ہوچکی ہے اور متحرک سیاست کے اُن کے پاس چند ہی سال ہیں لہٰذا اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک ایسا سیاسی پلان ترتیب دیا گیا جو جلد ہی کامیابی اختیار کرنے لگا اور مریم نواز جو کہ پہلے صرف وزیر اعظم کی بیٹی کے طور پر جانی جاتی تھیں اب پاکستان کی سیاست میں اہم کردار کی حامل ہیں اور پاکستان کی ایک اکثریت انھیں مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات سے پہلے تک نواز شریف نے اپنے اس بیانیہ کو کامیابی کے ساتھ کس طرح آگے بڑھایا اس کا فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں بس ایک لائن میں پوری بات کہنے کی کوشش کروں گا کہ پی پی پی آج تک بھٹو کے نام پر اس لیے ووٹ لیتی ہے کیونکہ اُس نے بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل اور تعصب قرار دیا تھا جو کہ ایک حقیقت بھی ہے اور ہماری عدالت آج تک اپنے منہ پر لگی اس کالک کو دھو نہیں سکی ہے۔ سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کے موقع پر جس انداز سے نواز شریف نے چھکا لگایا وہ یقیناً قابل ستائش بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔ نواز شریف اور ان کےاتحادیوں کو سینیٹ میں چیئرمین کے انتخاب میں شکست کے باوجود بھی آج بھی اکثریت حاصل ہے اور نواز شریف اور ان کے اتحادیوں کا اتحاد بڑا فطری اور پُرانا ہے جبکہ اپوزیشن کی جن جماعتوں نے اتحاد کرکے چیئرمین منتخب کرایا اُن کا اتحاد غیر فطری اور وقتی لگتا ہے جو کہ کسی بھی وقت نہ صرف اختلافات کا شکار ہوسکتا ہے بلکہ ختم بھی ہوسکتا ہے اور ایسی صورت میں چیئرمین سینیٹ کی پوزیشن بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے اور اکثریتی اتحاد اپنا چیئرمین لاسکتا ہے۔ نواز شریف نے وقتی طور پر چیئرمین سینیٹ کی نشست ہار کر دراصل دو پیغام دئیے ہیں ایک تو یہ کہ وہ جو بار بار کہہ رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو وہ صحیح ہے اور کچھ خفیہ عناصر اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کررہے ہیں صرف اس لیے کہ اُنھیں نواز شریف پسند نہیں ظاہر ہے اس کا فائدہ نواز شریف عام انتخابات میں اُٹھائینگے اور اسی نعرے کی بنیاد پر انتخابات جیتنے کی کوشش کریں گے۔ دوسرا پیغام انھوں نے اپنی صفوں میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو دیا ہے کہ اب نواز شریف ہار گیا اور سیاست سے رُخصت ہونے والا ہے اب تو کھل کر سامنے آجاؤ اور اُن کے سامنے آنے کے بعد نواز شریف اگلے انتخابات میں ایک مضبوط اور مخلص ٹیم کے ساتھ جائیں گے۔ سب سے بڑا کام یہ کیا گیا ہے کہ آصف زرداری کو عمران خان کی صفوں میں بٹھا کر عمران خان کے ہر سیاسی نعرے کی نفی کردی گئی ہے جس پر عمران کے ووٹرز نہ صرف مایوس ہیں بلکہ غصے میں بھی ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نواز شریف اگلے انتخابات میں پہلے سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کریں گے اور قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد سینیٹ کی چیئرمین شپ بھی حاصل کرلیں گے۔ اب فیصلہ آپ پر کہ اس ملک میں شریف بھاری ہے یا زرداری۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین