• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیانیے کی کھوج میں ریاست اور حکومت مخمصےمیںہیں۔ پاکستان میں دو طرح کے عمومی فکری بیانیے اور مکتبۂ فکر ہیں اور ان کے کئی ایک ملے جلے نظریات۔ پاکستان کیا ہو، ایک مذہبی ریاست یا پھر ایک جمہوریہ؟ زندگی و علم، حقوق و آزادی، ثقافت و وطنیت، روایت و جدیدیت پر ان کی علیحدہ علیحدہ رائے ہے۔ آج شدت پسندی کے باعث، انسانی معاملات و ریاستی امور کے بارےمیں ان دو نظریات میں خلیج بڑھ گئی ہے۔ اس تحریر میں ہم مذہبی شدت پسند بیانیے کا جائزہ لیں گے۔ جس کا قومی جمہوری متبادل سامنے لائے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا مشکل ہے۔
1۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ اسلام نہیں تو پاکستان کیوں؟ وطنیت غیراسلامی بنیاد ہے۔ اسلامی ریاست کی تشکیل ہی ’دوقومی نظریہ‘ یا پھر ’نظریۂ پاکستان‘ کا منتہائے مقصود ہے۔ اسلامی شناخت، شہریت اور قومیت سے بالاتر ہے۔ قومی ریاست اور شہریت کی زمینی و دُنیاوی بنیاد اسلام سے ماورا ہے اور اُمہ کے آفاقی تصور سے متصادم۔ اسلامی برادری کی جڑیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے چار خلفائے راشدین کے سنہرے دور میں پیوست ہیں اور جو زندگی اور بعد از موت دونوں صورتوں میں ایک مکمل ضابطۂ حیات فراہم کرتی ہے جو کہ دیگر ادیان میں ناپید ہے۔ اسلامی برادری بذاتِ خود ایک ریاست بھی ہے جس میں حکمرانی اعلیٰ درجے کے علماء جو سب سے زیادہ مومن ہوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس میں حقِ رائے دہی اور انسانوں کے سماجی و سیاسی بندھنوں اور ضابطوں کی کوئی گنجائش نہیں۔
2۔ مقامی ثقافتوں اور قومیتی ورثوں کی بات عصبیت پسندی ہے اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ قوم، قومیت، وطنیت اور علاقائیت کے تصورات، اسلامی اُمہ کی آفاقی ایکتا سے متصادم ہیں اور اسلامی نظریہ کی بنیاد پر ہی ملکی نظام کو استوار کیا جا سکتا ہے جو شریعت کے نفاذ اور خلافت کے قیام سے ممکن ہے۔ ایک اسلامی ریاست بذاتِ خود اُمہ کا حصہ ہے جبکہ ریاست کی قومی جغرافیائی دائرے میں تشکیل اُمہ کے آفاقی تصور سے متصادم ہے۔ (ریاست کو مانتے بھی نہیں اور اسے اسلامی بھی بناتے ہیں!)
3۔ ریاست، قومیت، شہریوں کا رہن سہن، ثقافت، کاروبارِ زندگی، شہریوں کے حقوق و فرائض، غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق، بنیادی انسانی حقوق، خواتین کی حیثیت، سب کا تعین اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہوگا، جس کی تشریح علمائے کرام کریں گے، نہ کہ پارلیمنٹ۔ مغربی طرزِ جمہوریت یا تو غیراسلامی ہے یا پھر ایک عبوری امر مجبوری جسے وقتی اور تدبیری طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلام کو رائج کرنے کی کوشش کی جائے گی اور بالآخر اسلامی خلافت قائم کی جائے گی۔ ہماری پارلیمانی مذہبی جماعتیں اسی راستے پر گامزن ہیں۔
4۔ فنونِ لطیفہ، مقامی یا غیرملکی ثقافتیں، خواتین کی آزادی، حقِ اظہار، تحقیق کی آزادی، بنیادی حقوق، عالمی قوانین، جدیدیت، عقلیت، محبت پیار، خاندانی منصوبہ بندی، عالمی منڈی کے قواعد، زمینی ملکیت پر حد، اسمگلنگ پر بندش، کثیر الزوجگی پر کسی طرح کی قدغن، انصاف کے قانونی تقاضے بشمول حق صفائی و دفاع، ریاست کی جانب سے قتل مقاتلے کی بندش، پدر شاہی بربریت کا خاتمہ، ذاتی اور نجی معاملات میں مداخلت کی ممانعت کم و بیش خلافِ اسلام ہیں۔ علم کا واحد ذریعہ صرف اور صرف دینی علم ہے، باقی سب عمرانیاتی و مادی علوم، عقل و تحقیق انسانی ہیں اور قابلِ انحصار نہیں۔ بدی و اچھائی کے معیار ابدی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔
5۔ سوائے اسلام کے باقی تمام ادیان باطل ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے گمراہ ہیں۔ دیگر ادیان کے ماننے والے کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ حتیٰ کہ ایک مسلک کو ماننے والے مسلمان دوسرے مسلک کے مسلمانوں کو کافر گردانتے ہیں اور اُن کے قتال پر مصر ہیں۔ شریعت اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بجاآوری کے لیے مسلمانوں کی جمعیتیں کوئی بھی راہ اختیار کر سکتی ہیں، بھلے ملکی اور عالمی قوانین اس کی اجازت نہ دیتے ہوں۔ ایک راسخ العقیدہ مسلمان کو حق ہے کہ لوگوں کو برائی سے روکے اور اچھائی کی طرف راغب کرے، یہی دین کی منشا ہے۔
6۔ عالمی برادری اور جدید دُنیا اسلام اور مسلم دُنیا کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، مسلم دُنیا کے ذرائع پر قابض ہیں یا اپنا قبضہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ہنود، یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں اور مسلمانوں کی تمام تر پسماندگیوں، محرومیوں اور کج رویوں کے ذمہ دار ہیں۔ مسلمانوں میں تفرقے کے بیج بو رہے ہیں اور مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا رہے ہیں۔ 9/11 کا واقعہ بھی یہود و نصاریٰ کی سازش ہے تاکہ مسلمانوں کو بدنام اور مغلوب کیا جا سکے۔ بیماری، کمزوری، پسماندگی، جہالت، تعصب، فرقہ پرستی، انتشار اور نفرت انگیزی کے مسلمان خود ذمہ دار نہیں بلکہ ان کے پیچھے بیرونی ہاتھ کارفرما ہیں۔
7۔ برصغیر کے مسلمان یا مسلم ممالک سے باہر پھیلے ہوئے مسلمانوں کا اس دھرتی، وطن، ثقافتی و تاریخی اقدار جہاں وہ بستے ہیں سے کوئی تعلق نہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے۔ ہندوستان پر مغل، افغان، عرب و دیگر کے حملے یہاں دینِ اسلام پھیلانے کے لیے تھے اور آج بھی مسلمانوں کا یہی مقصد ہے۔ یہ کہ مسلمانوں کا ماویٰ اسلام کی جنم بھومی ہے نہ کہ برصغیر ہندوستان کی ملیچھ دھرتی۔ لہٰذا برصغیر یا مغربی دُنیا میں رہنے والے ہر مسلمان کے لیے وہ تمام علاقے جہاں وہ رہتے ہیں، اجنبی ہیں یا پھر دارالحرب۔ مقامی و قومی ثقافتوں، زبانوں اور طور طریقوں کو اپنانا کفر ہے اور عربی ثقافت کو اختیار کرنا کارِ ثواب۔ غرض یہ کہ یہ دُنیا ایک سراب ہے، ترکِ دُنیا کرو اور آخرت کی تیاری!
8۔ مسلمانوں کے زوال کا واحد سبب دین سے دُوری ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اصل اسلام کی طرف سختی سے رجوع کرنا چاہیے۔ زمان و مکان سے قطع نظر، اسلام کے نام پر ایسے خوارجی نظریات پیش کیے جا رہے ہیں جو مسلمانوں کی بہت بھاری اکثریت کو ہی کافر قرار دیتے ہیں۔ خوارجی و تکفیری نظریات کی بالادستی کے لیے، جہاد و قتال کی ایسی خوفناک تشریحات کی جا رہی ہیں کہ جید علما بھی حیرت زدہ ہیں۔ القاعدہ اور داعش نے جو راستہ اپنایا ہے، اُسے طالبان کے کچھ حصے و دیگر فرقہ پرست تیزی سے قبول کر رہے ہیں۔ ایمن الظواہری پاکستان کے آئین کو باطل قرار دے چکے ہیں۔ طالبان پاکستان، افغانستان کے آئین و قوانین، بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت، پارلیمنٹ، عدلیہ، تہذیب و ثقافت اور جدید اداروں بشمول میڈیا اور سائنسی علوم و فنون کو غیراسلامی قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک روایتی جبریت اور قبائلی غیرت کو اسلام کے خوارجی تصورات سے ہم آہنگ کر کے اپنی پسند کی شریعت نافذ کرنے کے دعویدار ہیں، جس کے لیے بہترین راستہ جہاد فراہم کرتا ہے، جس میں عوامی مقامات پر خودکش بمباری بھی جائز ہے۔ یہ حضرات ایک عالمی اسلامی، جہادی و تکفیری مکتب کے فروغ کے لیے قومی ریاستوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پوری دُنیا میں کوشاں ہیں اور اُن سے اختلاف کرنا قابلِ گردن زدنی ہے۔ پاکستان میں یہ تکفیری، خوارجی نظریہ، قوم پرستی اور قبائلی خلوت پسندی کے ساتھ مل کر ریاست و معاشرے سے برسرِپیکار ہے اور جس کے سامنے جید علماء نہ صرف کھڑے ہونے کو تیار نہیں، بلکہ اُن کے لیے معذرت خواہانہ توضیحات پیش کرتے نہیں تھکتے۔ دینی جماعتیں ایک طرح سے 73ء کے آئین کے عمرانی معاہدے اور دائیں و بائیں بازو کے نظریاتی سمجھوتے اور اس کے باریک توازن کو ختم کر کے، طالبان کے نظام کے لیے راہ ہموار کرنے پر مائل نظر آتی ہیں۔
خاص طور پر خواتین و اقلیتوں کے حقوق، حقِ اظہار، ثقافتی سرگرمیوں، فنونِ لطیفہ اور آزادی کا ماحول اُن کے نشانے پر ہے۔ وہ کلچرل سرگرمیوں اور اظہار کے ذرائع پر بندش لگانے کے لیے کوشاں ہیں کہ ان سے بے حیائی پھیلتی ہے۔ قدامت پسندی، توہم پرستی اور ہر طرح کی عطائیت کا فروغ ہمارے اسلام پسندوں کا شیوہ ہے۔
9۔ نظریۂ پاکستان کے نام پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان میں مُلّا ئیت، مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت اور جہادی کلچر کا فروغ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں انجام دیا گیا تھا اور اس مکتبِ فکر کے لوگوں کو قوم کی قلب ماہیت، قومی تشخص، نظامِ تعلیم اور سلامتی کے امور میں فکری بالادستی فراہم کی گئی۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کے وقت سے سلامتی کے ادارے اس سرکاری جہاد میں پورے کر و فر سے کود پڑے تھے اور جہاد کو خارجہ و سلامتی کے اہداف کے حصول کے لیے ایک بڑا حربہ سمجھ کر فروغ دیا گیا۔ دہشت گردوں کو سرکاری سطح پر اسٹرٹیجک اثاثے قرار دیا گیا اور خود ریاستی ادارے اس جہادی نظریے کا شکار ہو گئے۔ تاآنکہ یہ جہادی اثاثے اپنے خالقوں پہ پل پڑے۔
یقینا اس مجموعی جائزے پر بہت لوگ معترض ہوں گے۔ اُن سے درخواست ہے کہ وہ ان نکات پر اپنی رائے دے کر بحث کا آغاز کریں۔ (اگلے کالم میں متبادل قومی جمہوری بیانیہ پیش کیا جائے گا۔)
تازہ ترین