• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
   
تعلیم ہی  بہتر سول سوسائٹی تشکیل دے سکتی ہے

لیاقت علی جتوئی

پیدائش کے وقت، تقریباً ہر انسان پانچ احساس لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔ کچھ خاص لوگ ہوتے ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ چھٹی حس عطا کرتا ہے۔ تاہم شہری ذمہ داری کا احساس لے کر کوئی پیدا نہیں ہوتا۔ہر چند کہ ہمارے اندر بولنے کی فطری صلاحیت موجود ہوتی ہے، لیکن بچے الفاظ اور زبانیں اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔اسی طرح ، ان کی شخصیت میں شہری ذمہ داری کا احساس بھی پیدا کرنا پڑتا ہے ، انھیں سکھانا پڑتا ہے۔

 بچوں کو شہری ذمہ داری سے باخبر کرنا اتنا ہی اہم ہے جتنا انھیں آگ یا گرم چیز میں ہاتھ ڈالنے سے منع کرنا۔جیسے آگ سے بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح شہری ذمہ داری کے احساس کی کمی یا اس کانہ ہونا معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتاہے۔

شہری ذمہ داری کا احساس(Civic Sense) کیا ہے؟ عالمی اور فطری طور پر تسلیم شدہ معاشرتی اخلاق اور بن کہے، بن لکھے طے شدہ سماجی اصولوں کے مجموعی کو شہری ذمہ داری کے احساس کا نام دیا جاتا ہے۔

سڑکوں، گلیوں، پبلک مقامات کو صاف ستھرارکھنا، ٹریفک قوانین کی پاسداری کرنا، قانون پر عمل درآمد کرنا، دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنا، گھر، دفتر، پبلک مقامات پر نظم و ضبط قائم رکھناوغیرہ۔۔ یہ ساری خسصوصیات شہری ذمہ داری میں شمار ہوتی ہیں۔جن افراد میں شہری ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا، وہ دراصل قانون کی پاسداری کرنا نہیں جانتے۔اس کا الزام کسی اور کو نہیں دیاجاسکتا، ماسوائے خود کے۔

 شہری ذمہ داری کا مطلب اپنے ساتھی انسانوں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے نرم رویہ اختیار کرنا ہے۔بوڑھوں، خواتین، بچوں اور معذور افراد کا خصوصی خیال رکھنا ہے۔پبلک مقامات پر کچرا کوڑے دان میں پھینکنے کا نام شہری ذمہ داری کا احساس ہے۔ اپنی لین میں گاڑی چلاتے ہوئے ہارن نہ بجانے کا نام شہری ذمہ داری ہے، سگریٹ نوشی کے لیے مخصوص جگہوں کے سوا کسی اور جگہ سگریٹ استعمال نہ کرنا شہری ذمہ داری ہے۔

دوسروں کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں

اچھا ذمہ داری شہری ہونے کی اولین اور بنیادی شرط یہی ہے؛ کہ ہم اپنے معاشرتی مسائل کی دوسروں پر ذمہ داری ڈالنا چھوڑ دیں۔ یقین رکھیں، اگر ہم باہر کھلی جگہ کچرا پھینکنا چھوڑ دیں تو گلی، محلے اور سڑکوں پر کچرا جمع نہیں ہوگا۔

اگر ہم ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہوجائیں تو سڑکوں پر بدنظمی اور حادثات کم ہوجائیں گے۔ ہر مسئلے کے حل کے لیے حکومت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ وہی کچھ کرے گی۔ بہتری کا آغاز خود سے کریں اور بہت جلد آپ اس کے مثبت نتائج دیکھیں گے۔ہمارا معاشرہ ہمارے رویوں اوراعمال کا عکاس ہوتاہے۔معاشرے کو ٹھیک کرنے کے لیے پہلے خود کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔

ٹریفک قوانین اور شہری ذمہ داری

سڑکوں پر چلتے، دوڑتے اور گاڑی چلاتے وقت دوسروں کا خیال رکھنا اور ٹریفک قوانین کا استعمال کرنا ہماری شہری ذمہ داریوں کا ناگزیر حصہ ہے۔ چند بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے میں اپنا کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں۔

دوسروں کو رستہ دیں

پبلک مقامات پر چلنے اور سڑکوں پر ڈرائیونگ کا بنیادی اصول کیا ہے؟ رستہ مت لیں، بلکہ دوسروں کو رستہ دیں۔ جب دوسروں کو رستہ دیں گے تبھی آپ کو رستہ ملے گا۔ڈرائیو کرتے وقت دوسری گاڑیوں کی سہولت کا بھی خیال رکھیں۔شہر کی سڑکوں کو دوڑ لگانے کا ٹریک نہ سمجھیںکہ آپ کوسب سے پہلے پہنچنا ہے۔

اشارے استعمال کریں اشاروں پر عمل کریں

ہم جو موٹرسائیکل اور کار چلاتے ہیں، اس میں نصب اشاروں کا کثرت سے اور درست استعمال کریں۔ مثلاً: روڈ پر سفر کرتے ہوئے آپ کو ایک لین سے دوسری لین میں جانا ہے تو مطلوبہ اشارے کا استعمال کریں، تاکہ آپ کے اچانک سے ایک لین سے نکل کر دوسری لین میں جانے سے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو زحمت نہ ہو اور کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہ آئے۔

 اسی طرح، مختلف مقامات پر لگے سگنلزکا احترام بھی کریں۔ لال بتی (Red Light)کا مطلب سگنل پر رکنا ہوتا ہے۔اپنی باری کا انتظار کریں اور جب ہری بتی (Green Light)جل جائے، تب ہی گاڑی کے ایکسیلیریٹرکو دبائیں۔

ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ کا استعمال

موٹرسائیکل کتنی اچھی سواری ہے۔ سو روپے کا پٹرول ڈلوائیں اور اپنی موٹرسائیکل پر آدھاشہر گھوم کر اور اپنے سارے کام نمٹا کر آجائیں۔ ٹریفک جام میں بھی یہ خوب کام آتی ہے، جب مرکزی شاہراہ پر گاڑیاں ٹریفک جام میں پھنسی ہوں، آپ اسے پتلی گلی نکال سکتے ہیں۔ موٹرسائیکل سواری کو مزید خوشگوار بنانے کے لیے ہیلمٹ کو اپنی عادت بنا لیں اور خود کو اور اپنی فیملی کو ہر طرح کی پریشانی سے محفوظ رکھیں۔

 اسی طرح کار ڈرائیو کرنے والی خواتین اور حضرات سیٹ بیلٹ ضرور باندھیں۔ سیٹ بیلٹ باندھنے سے آپ کا گاڑی پر کنٹرول مؤثر رہے گا اور اسپیڈ میں اچانک کی اونچ نیچ میں توازن کوباآسانی قائم رکھ پائیں گے۔

ہارن کا استعمال کم کریں

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ اپنے نومولود یا کم عمربچے کے ساتھ کار، موٹرسائیکل یا آٹو رکشہ میں جارہے ہوں اور تیزی سے ڈرائیو کرتا کوئی شخص چیختاچلاتا ہارن بجاتا ہواآپ کو کراس کرے، جس سے آپ کا بچہ خوفزدہ ہوگیا ہو۔ ہمارے بڑے شہروں میں ایسے مناظربہت عام ہیں۔ یادرکھیں، اندرون شہر اور اندرون محلہ ہارن کا استعمال نہ کرنا ہمارے اچھا شہری ہونے کی ایک نشانی ہے۔ ان جگہوں پر ہارن کا استعمال بحالت مجبوری کریں۔

 ہارن بجانے سے کوئی بیمار شخص بھی پریشان ہوسکتا ہے۔ معاشرتی افراتفری میں کمی کے لیے اپنا کردار اداکریں اور شہری ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ شنگھائی میں ممنوعہ مقامات پر ہارن بجانے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔کیا آپ کو پتہ ہے کولکتہ کے ایک ڈرائیور، جس کا نام دیپک داس ہے، نے اٹھارہ سال میں ایک باربھی ہارن نہیں بجایا۔ اس بات پر Humanity Fair نامی تنظیم نے انھیں ایوارڈ بھی دیا ہے۔ دیپک کی خواہش ہے کہ وہ کولکتہ کو ہارن۔فری شہر بنادے۔ ہم بھی اپنے شہروں کو ہارن فری شہر بنا سکتے ہیں۔

نوپارکنگ

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی گاڑیاں ’’نوپارکنگ‘‘ زون یا فٹ پاتھ یا روڈ کے کنارے کہیں بھی کھڑی کردیتے ہیں۔ اس سے ٹریفک کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، ٹریفک جام کے باعث لوگ گھروں کو تاخیر سے پہنچتے ہیں، مریضوں کو ہسپتال پہنچنے میں دیر ہوجاتی ہے ۔ آئیں عہد کریں، آج کے بعد غلط جگہ پر پارکنگ کو NO کہنا ہے۔

ہم احساس بنیں

ہم میں سے اکثر لوگ دوسروں کے مسائل، پریشانیوں اور غم میں ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ اب ایک قدم اور آگے جانے کی ضرورت ہے۔ آئیں، دوسروں کے مسائل کو ان کی نظر سے، ان کے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کریں۔اس خصلت کو ہم احساسی (Empathy)کہا جاتا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک میں ہمیں دوسروں کے آرام ، آسانی، روانی اور وقت کا بھی اتنا ہی خیال رکھنا چاہیے، جتنا کہ ہم خود اپنا رکھتے ہیں۔

ہمارا حق ہمارا فرض

ہم بہت ساری چیزوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جن کا خیال رکھنا دوسروں کا فرض بن جاتا ہے۔ اب آئیں اس کو دوسری طرف سے دیکھتے ہیں، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا ہم پر بھی فرض بن جاتا ہے۔ ٹریفک قوانین پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔

وقت سے کچھ دیر پہلے نکلیں

دفتر، مارکیٹ یا کہیں جانے کے لیے آپ اپنی گاڑی استعمال کرتے ہوں یا پبلک ٹرانسپورٹ، وقت سے کچھ دیر پہلے نکلنا اپنی عادت بنا لیں۔جب آپ کو کہیں پہنچنے میں دیر نہیں ہورہی ہوگی، ٹریفک قوانین پر بہترطور پر عمل درآمد کرسکیں گے اور دوسروں کا بہترخیال بھی رکھ پائیں گے۔ 

اسی طرح، پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والے افرادپہلی دستیاب بس ، جو پہلے ہی اوورلوڈڈ ہے، اس پر سوارہوکر اسے مزید اوور لوڈ نہیں کریں گے۔ آپ کے پاس چوں کہ ابھی کچھ اوروقت باقی ہے، آپ اگلی بس کا انتظار کرسکتے ہیں۔ اوورلوڈڈ گاڑیوں کو حادثہ پیش آنے کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں بنسبت ان گاڑیوں کے جو اوورلوڈڈنہیںہوتی۔

پیدل چلنے والوں کا حق

اندرون شہر کئی مقامات پر زیبرا کراسنگ بنی ہوتی ہے۔ان زیبرا کراسنگ پر پہلے پیدل چلنے والوں کا حق ہوتا ہے۔ اگلی بار جب آپ ڈرائیو کرتے وقت کسی شخص کو زیبرا کراسنگ سے روڈ پھلانگتے دیکھیں تو اپنی گاڑی کو آہستہ کردیں، ضرورت ہوتو چند سیکنڈ کے لیے روک دیں، کیوں کہ زیبرا کراسنگ پر پہلا حق پیدل چلنے والوں کا ہوتا ہے۔

بچوں میں شہری ذمہ داری پیدا کریں

بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ ہمارے بچے جب گھر پر ٹافی یا چاکلیٹ کھاتے ہیںتو انھیںان کا Wrapper کچن میں رکھے کوڑے دان میں پھینکنا سکھاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، بچوں کو ٹریفک قوانین کی پاسداری بھی سکھائیں۔

 اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ڈرائیونگ کرتے وقت آپ خود ان کے لئے رول ماڈل بن جائیں۔ جب آپ ٹریفک قوانین پر عمل کریں گے تو وہ بھی بڑے ہوکر ٹریفک قوانین کی پاسداری کرنا اپنا فرض سمجھیں گے۔

صرف حکومت ذمہ دار نہیں

ٹریفک نظام کوبہتر بنانے کے لیے قوم میں شہری ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز۔ عوام، حکومت، قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار ادارے، میڈیا، علمائے دین، سول سوسائٹی، پروفیشنلز سب کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔

آئیے، ان چند باتوں پر عمل کرکے ہم ارد گرد کے ماحول، ٹریفک کی صورت حال اور اپنے اور دوسروں کے موڈ کو خوشگواربنائیں۔

تازہ ترین