• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی واٹر بورڈ، پمپس اور موٹروں کی خریداری میں خورد برد کا انکشاف

کراچی واٹر بورڈ، پمپس اور موٹروں کی خریداری میں خورد برد کا انکشاف

کراچی واٹر بورڈ سمیت سندھ کے مختلف منصوبوں میں 10سال کے دوران واٹر پمپس اور پانی کی موٹروں کی خریداری میں بڑے پیمانے پر خورد برد کا انکشاف سامنے آیا ہے، جس پر واٹر جوڈیشل کمیشن نے دو متعلقہ کمپنیوں سے گذشتہ دو سالوں کے منصوبوں میں استعمال کی گئی مشینری سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے۔

ذرائع کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ، واسا اور پانی کی فراہمی کے دیگر سرکاری اداروں کے ترقیاتی منصوبوں میں لگ بھگ ایک دہائی سے مافیاز کی جانب سے سرکار کو ’چونا لگانے‘ کا عمل جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق سرکاری اداروں کے مبینہ طور پر کرپٹ ترین ذمے داروں کی ملی بھگت سے کنٹریکٹر پانی کی فراہمی کے نئے اور پرانے منصوبوں میں غیرملکی کمپنی کی مصنوعات کے استعمال کے نام پر کروڑوں روپے کی کرپشن کرتے آرہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق واٹر بورڈ میں پرانے منصوبوں پر ہنگامی اور ڈمی ٹینڈرز جاری کرکے اصل کام کرنے کی بجائے کاغذات میں غیرملکی کمپنی کی نئی مصنوعات کی تنصیب ظاہر کرکے بلنگ کردی جاتی ہے،درحقیقت محض پرانی تنصیبات کو معمولی ردوبدل یا رنگ و روغن کرکے بل پاس کردیئے جاتے ہیں، جس کے عوض مافیا کے ذریعے کروڑوں روپے خرد برد کرلیے جاتے ہیں۔

دوسری طرف نئے منصوبوں میں بھی پرانے پمپس اور موٹریں رنگ کرکے نئی کے طور پر نصب کردی جاتی ہیں اور کنٹریکٹر غیرملکی کمپنی کے نئے پمپس، موٹروں اور دیگر سامان کی خریداری ظاہر کرتے ہیں،اس سلسلے میں رپورٹس سامنے آنے پر سندھ میں پانی کے گھپلوں کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے 9مارچ کو حکومت سندھ اور متعلقہ اداروں سے دو ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

جنگ نیوز

واٹر کمیشن نے اپنے آرڈر میں دو معروف کمپنیوں ’کے ایس بی پمپس‘ اور ’سی مینز‘ سے سندھ میں گزشتہ دو سال کے دوران استعمال کی گئی ان کی مصنوعات کے سرٹیفکٹ مانگ لئے ہیں۔

اس بابت رابطہ کرنے پر واٹر کمیشن کے معاون اور پٹیشنر شہاب اوستو ایڈووکیٹ نے جنگ کو بتایا کہ کراچی ہی نہیں واٹر کمیشن کے پورے سندھ میں پانی کے منصوبوں میں استعمال کیے گئے، پمپس، موٹروں، پائپس ظاہر کی گئی کوالٹی کے نہیں ہوتے، ادارے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ابتدا ہے معاملات ٹھیک کرنے کیلئے بہت دور تک جائیں گے۔

دوسری طرف ذرائع کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایک سو سے زائد پمپنگ سٹیشن کی مرمت اور ترقیاتی کام کیلئے اس عرصے کے دوران مذکورہ کمپنیوں سے بڑی تعداد میں پمپ اور موٹریں خریدی گئیں۔

واٹر بورڈ کے ڈی ایم ڈی ٹیکنیکل اسد اللہ نے اس کے برعکس مؤقف اختیار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ نے گزشتہ دو سال کے دوران ایسا کوئی منصوبہ ہی نہیں بنایا جس میں ان کمپنیوں کی مصنوعات استعمال کی گئی ہوں۔

تازہ ترین