• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس، تیسرے جج کی بھی کیس سننے سے معذرت

ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس، تیسرے جج کی بھی کیس سننے سے معذرت

کراچی (اسد ابن حسن) ایگزٹ جعلی ڈگری کیس میں ملزم شعیب شیخ نے عدم حاضری کی روش پہلے کی طرح پھر اختیار کرنی شروع کردی ہے اور ری ٹرائل کرنے والی عدالت میں چوتھی پیشی پر بھی حاضر نہیں ہوا جس پر سماعت کرنے والی ایڈیشنل سیشن جج ساؤتھ محترمہ سارہ جونیجو نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے اگلی تاریخ 29؍ مارچ مقرر کی۔ جج نے چیمبر سے ہی سماعت ملتوی کرنے کا حکم جاری کیا۔شعیب شیخ کے وکلا نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی سارہ جونیجو پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ سماعت کے موقع پر عدالتی عملے نے شعیب شیخ کے وکلا سے آئندہ تاریخ لینے کا کہا اور بتایا کہ جج صاحبہ نے کہا ہے جب تک کیس ٹرانسفر نہیں ہوجاتا تاریخ لے لیں جس پر ملزم شعیب شیخ کی جانب سے وکالت نامہ جمع کرانے والے وکیل احتشام اللہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ جج سے کہیں کورٹ میں آکر بیٹھیں ہم جج کے دشمن نہیں۔یہاں دہشت گردوں کی ضمانت ہوجاتی ہے شعیب شیخ نے کسی کا قتل تو نہیں کیا۔ مرکزی ملزم شعیب شیخ کو آج بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ ہفتہ کو ہی سندھ ہائی کورٹ میں جج نذر اکبر کی عدالت میں ملزم شعیب شیخ کی ضمانت پر دلائل ہونے تھے مگر ڈپٹی اٹارنی کی عدم پیشی پر سماعت ملتوی کردی گئی اور کوئی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ملزم شعیب شیخ 19 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیش ہوگا اور اس کے اگلے روز 20؍ مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج قادر میمن کے رشوت لینے کے الزام کے کیس میں سنوائی ہوگی جس کے لیے ملزم شعیب شیخ اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں۔ ملزم شعیب شیخ کے خلاف سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں چیف جسٹس نے کیا ریمارکس دیئے ان کی تفصیلات کچھ یوں ہیں :معزز سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالحسن نے 9؍ فروری 2018ء کی عدالتی کارروائی پر 14؍ فروری کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں تحریر کیا گیا کہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن عدالت میں حاضر ہوئے اور اُنہوں نے بیان دیا کہ ایگزٹ کمپنی سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمپنی میں جولائی 2002ء میں رجسٹر ہوئی۔ اس کا ہیڈ آفس خیابان اتحاد پر واقع ہے۔ اس کے 10؍ بزنس ہیں (پیرائمانیسی)۔ کمپنی کو سوفٹ ویئر کی برآمد کے سلسلے میں رجسٹرڈ کروایا گیا۔ اس کے پاس پاکستان سوفٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کا لائسنس بھی موجود ہے۔ ایگزٹ کے پاس پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مختلف لائسنس بھی تھے جن میں وائس اوور (Voice Over) کا لائسنس بھی شامل تھا۔ ڈی جی نے مزید بتایا کہ کمپنی کا زیادہ تر بزنس آن لائن یونیورسٹیوں کے اردگرد گھومتا تھا اور جن کی تعداد تقریباً 330؍ تھی۔ کمپنی کے پاس کسی یونیورسٹی کا کوئی کیمپس موجود ہی نہیں تھا۔ کمپنی اعلیٰ ڈگریاں جوکہ پی ایچ ڈی تک کی ہوتی تھیں وہ جعلی آن لائن یونیورسٹیوں کے نام پر فروخت کرتی تھی۔ بشیر میمن نے عدالت کو مزید بتایا کہ ایگزٹ کمپنی ان جعلی ڈگریوں کی ’تصدیق‘ کرنے کا ایک الگ سیٹ اَپ بنا رکھا تھا تاکہ اگر جعلی ڈگری کی کوئی اگر تصدیق کرنا چاہیے تو وہ تصدیق کردی جائے۔ کمپنی نے متعدد جعلی ویب سائٹس بھی بنا رکھی تھیں، جہاں پر غلط معلومات فراہم کی جاتی تھیں تاکہ ضرورت مند افراد کو لالچ دے کر خطیر رقوم وصول کرکے یہ جعلی ڈگریاں فراہم کی جاسکیں۔ رقوم وصول کرنے کے لیے مختلف بینک اکاؤنٹس موجود تھے جبکہ اس بات کا بھی شک موجود ہے کہ کمپنی منی لانڈرنگ میں بھی ملوث تھی۔ اس کے علاوہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے پاکستان پینل کوڈ، فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2018ء کے تحت مقدمات درج کیے ہیں مگر عدالتی کارروائیاں اپنے منطقی انجام تک پہنچ نہیں پائی ہیں جن میں (1) ایف آئی آر نمبر 51/2015ء جوکہ 14؍ اکتوبر 2015ء کو ایف آئی اے کمرشل بینک سرکل میں زیر دفعہ 23-8-5 اور 23، ایف آئی آر ایکٹ 2010 اور 109/34 پی پی سی درج ہوئی۔ اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ نے 249-A کے تحت ملزمان کو بری کردیا۔ اس بریت کے خلاف ایف آئی اے نے اپیل سندھ ہائی کورٹ میں فائل کی جو زیرالتوا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ایک دو رکنی ڈویژن بنچ تشکیل دے جو ایک ماہ میں سنوائی کرکے اپنا فیصلہ دے۔ (2) مورخہ 7 جون 2015 کو راولپنڈی ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل نے مقدمہ نمبر 56/2015 درج کیا۔ مقدمے میں دفعہ 109-473-471-468 -420-419 اور 34 پی پی سی اس کے ساتھ الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس کی دفعات 36 اور 37 اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 4 لگائی گئی۔ اس مقدمے میں 20 ملزمان تھے ان سب کو ٹرائل کورٹ نے 31 اکتوبر 2016 کو رہا کردیا۔ اس فیصلے کے خلاف ایف آئی اے نے کرمنل اپیل نمبر 2500/2016 اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی۔ معزز عدالت نے حکم دیا کہ مذکورہ اپیل کی سنوائی اسلام آباد ہائی کورٹ کا ڈویژن بنچ جس کے سربراہ اطہر من اللہ ہوں، وہ کرے اور ایک ماہ میں فیصلہ صادر کرے۔ عدالت کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے آگاہ کیا کہ ٹرائل کورٹ کے جج پرویز القادر میمن کے خلاف سنگین الزامات ہیں جس پر عدالت نے حکم دیا کہ مذکورہ جج کے خلاف الزامات کی پیشی ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی 12 فروری کو کرے گی۔ اس کی تمام تفصیلات عدالت میں بھیجی جاتی رہیں جب تک کمیٹی کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ (3) ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل پشاور نے مورخہ 4 جنوری 2016 کو مقدمہ نمبر 1/2016 درج کیا۔ 474-473-471-468-420 اور 109 پی پی سی اور انسداد کرپشن ایکٹ کی دفعہ 5(2) لگائی گئیں جس میں ملزمان کو ضمانت دے دی گئی۔ بعد میں ملزمان کی طرف سے دو رٹ پٹیشن پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں جس کے بعد مقدمہ خارج کردیا گیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ایف آئی اے ان فیصلوں کے خلاف اپیل داخل کرے گی۔ (4) ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی نے 27 مئی 2015 کو اینٹی منی لانڈرنگ کا مقدمہ نمبر 7/2015 درج کیا۔ عدالت کے علم میں ہے کہ ملزمان کو ضمانت مل چکی ہے اور یہ مقدمہ دوبارہ ایڈیشنل سیشن جج ساؤتھ VIII محترمہ سائرہ جونیجو کی عدالت میں زیرالتوا ہے مگر اس مقدمے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوپارہی کیونکہ ملزمان کی طرف سے التوا کی درخواستیں پیش کی جاتی ہیں۔ اس لیے پرازیکیوشن اگر چاہے تو ضمانت کی منسوخی کی درخواست دائر کرسکتا ہے جس کا فیصلہ میرٹ پر کیا جائے۔ جن عدالتوں میں اس حوالے سے مقدمات چل رہے ہیں وہ بغیر کسی دباؤ کے میرٹ پر فیصلہ کریں۔ عدالت میں شعیب شیخ جوکہ چیف ایگزیکٹو ایگزٹ کمپنی ہیں، نے بیان دیا کہ ان کی کمپنی کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ وہ اپنا ٹرائل کورٹس کی کارروائیوں سے متعلق اور اپنے بزنس سے متعلق تحریری رپورٹس بھی متعلقہ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ عدالت میں جمع کروائیں گے۔ اس عدالت میں اس وقت بڑی تعداد میں جرنلسٹس، اینکرپرسن اور بول کے ورکرز جو بول ٹی وی جوکہ ایگزٹ کمپنی کی ملکیت ہ، آگے آئے اور شکایت کی کہ ان کو برسوں سے تنخواہ ادا نہیں کی جارہی۔ اسی حوالے سے راولپنڈی، اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس مظہر اقبال نے بھی اس عدالت میں ایک درخواست جمع کروائی ہے۔ شعیب شیخ کو نوٹس جاری کیا جائے کہ وہ اس ضمن میں اپنا جواب داخل کریں۔

تازہ ترین