• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادارےدفاع کرسکتے ہیں،سیاسی لیڈروں کواپنا دفاع کرناچاہئے،مشاہداللہ

کراچی(ٹی وی رپورٹ)مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانا جبکہ نواز شریف نے حکم تسلیم کیا،سیاسی لیڈروں کو چاہئے کہ وہ اپنا دفاع کریں، عدلیہ اور فوج سب کی ہے،چند لوگ بوٹ کے اندر گھس کر جو آوازیں لگاتے ہیں کہ وہ فوج اور عدلیہ کا دفاع کریں گے ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہئے،فوج اور عدلیہ سب کی ہے،ن لیگ سب سے بڑی پارٹی ہے اور فوج ، عدلیہ سب سے زیادہ ان کی ہے،چوہدری نثار خان جب تک پارٹی میں ہیں ان کو اس پلیٹ فارم کا استعمال کرنا چاہئے،ن لیگ نے جتنی فوج او ر عدلیہ کی خدمت کی کسی اور نے نہیں کی ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام” لیکن “ میں میزبان سےگفتگو کررہے تھے۔پروگرام میں نمائندہ خصوصی جیونیوز عبد القیوم صدیقی، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین کامران مرتضیٰ اور مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز سے بھی گفتگو کی گئی۔ میزبان رابعہ انعم نے بتایا کہ جسٹس دوست محمد اپنی نجی مصروفیات کے باعث ریٹائرمنٹ کے موقع پر سپریم کورٹ بار کونسل اور پاکستان بار کے عشائیے میں شرکت نہیں کریں گے جبکہ دونوں بار کی جانب سے دوست کھوسہ کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس نہ ہونے پو تشویش کا اظہار بھی کیا ہے ،ا ن کی خصوصیات میں سے یہ بھی تھا کہ وہ کیسز کو طول نہیں دیتے تھے اور بہت جلدی فیصلہ کئے کرتے تھے، انہوں نے کئی سزائے موت کے کیسز کو بھی ختم کرائے، انہوں نے احتساب کے معیار کیلئے بھی کہا تھا کہ سب کیلئے ایک معیار ہونا چاہئے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ججز اور جرنیلوں کے ٹرائل کا حامی ہوں اور یہ ٹرائل احتساب قانون کے تحت اسی طرح ہوں جس طرح عام لوگوں کا ہونا چاہئے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب سیاسی تنازعات سیاسی ذرائع سے حل نہیں کئے جاتے تو مارشل لاء کے خطرے بڑھ جاتے ہیں، اس اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے نمائندہ خصوصی جیونیوز عبد القیوم صدیقی نے کہا کہ عشائیے میں دوست محمد خان کی شرکت نہ کرنا اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے، یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ فاضل جج کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس نہ ہونا، ان کا کہنا تھا کہ جب ذرائع سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی، ایک بات واضح ہے کہ اختلاف کی کچھ وجوہات موجود ہیں اس لئے یہ تقریب نہیں ہورہی ہے، عبد القیوم کا کہنا تھا کہ فل کورٹ ریفرنس میں چیف جسٹس، اٹارنی جنرل اور وکلاء جج کی خدمات کو سراہتے ہیں اور ریٹائر ہونے والا جج بھی اظہار خیال کرتا ہے اور ماضی میں کوئی ایسی مثال نہیں جس میں یہ تقریب نہ ہوئی ہولیکن پی سی او ججز اس سے مستثنیٰ ہیں۔مصدقہ ذرائع کی اطلاعات کے مطابق ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی تقریر بھجوائیں جسے چیف جسٹس پڑھیں گے اور اس پر اختلاف ہوگیا، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ان کی دانست میں یہ پہلی بار ہوگا کہ فل کورٹ ریفرنس نہ ہو لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ انکار کی وجہ کیاہے، جو خط انہیں موصول ہوا اس میں نجی مصروفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اختلاف تو حسن کی علامت ہے اور اسے کسی ذاتی حد تک لے جانا مناسب نہیں ہوتا، انہوں نے بتایا کہ جسٹس دوست ایک اچھے جج تھے اور ان کے سامنے پیش ہونے سے مسرت ہوتی تھی، ان کی ایک بات یہ تھی کہ جو دل میں ہوتا تھا وہ کہہ جاتے تھے۔یہ کہنا درست نہیں کہ ان کی شخصیت سپریم کورٹ کے جج کے طور پر میچ نہیں کرتی تھی،یہ کہنا مناسب نہیں۔پروگرام کے آخری حصے میں میزبان نے بتایا کہ نئی حلقہ بندیوں تنازع کے حوالے سے فافن رپورٹ یہ کہتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے81نئے انتخابی حلقوں میں ووٹ کے برابری کےاصول کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق بادی النظر میں الیکشن رولز 2017میں حلقہ بندیوں سے متعلق قواعد ووٹ کی برابری کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے، اس اہم معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے گئے قانون میں تضاد ہے ، جہاں قومی یا صوبائی اسمبلی کا ذکر ہے وہاں الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ شامل کیا ہے، جس کے باعث آبادی بڑے پیمانے پر تتر بتر ہوتی نظر آرہی ہے، اسی طرح رول 10-5-Aے مطابق ایک منتخب ڈسٹرکٹ سے ڈسٹرکٹ اپلیکیشن دیکھی گئی ہے، ایم پی اے اور ایم این اے حلقوں کیلئے کچھ اور معاملہ رکھا گیا ہے۔
تازہ ترین