• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

داعش کے ہمراہ لڑنے کیلئے شام جانے والے1000جنگجو یورپ واپسی کی کوشش کرسکتے ہیں،سیکورٹی چیفس کی وارننگ

لندن(نیوز ڈیسک) سیکورٹی چیفس کے تخمینے کے مطابق داعش کے1000سے زائد جہادی یورپ واپس آنے کی کوشش کر سکتے ہیں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ2014میں عسکری گروپ کے ابھر کر سامنے آنے کے بعدتقریباً 5,000سے6,000ای یو شہریوں نے اس میں شمولیت کے لئے بیرون ملک کا سفر کیا۔یہ یقین بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بیرون ملک جانیوالوں میں سے ایک تہائی لڑائی میں ہلاک ہو گئےجبکہ تقریباً اتنی ہی تعداد پہلے ہی اپنے اپنے ملکوں میں واپس آچکی ہے۔ یورپین یونین کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی یوروپولی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر راب وین رائٹ کا کہنا ہے کہ ان اعدادوشمار میں بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جنہیں شمار ہی نہیں کیا گیا۔پریس ایسوسی ایشن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑے انٹیلی جنس سوالات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لوگ اب کہاں ہیں ؟ ممکنہ تھیوریز پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے خود سوال کئے کہ کیا یہ لوگ دوبارہ مختلف جگہوں پر منتقل ہو چکے ہیں ؟ کیا یہ لوگ ہمارے علم میں آئے بغیر گھروں کو واپس آ چکے ہیں ؟ انہوں نے اپنےہی سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہو اہے۔انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر ہماری سوچ سے بھی زیادہ نوجوان ہلاک ہو چکے ہیں۔ پھر ایک حتمی منظر بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اب تک وہاں ہی ہیں اور ’’ شہادت‘‘ کے حصول کے اپنے مقصد کے خواہشمند ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس بارے میں تشویش ہے کیونکہ یہ ایک بڑی تعداد ہے ۔ یہ تعداد 1000سے زیادہ ہو سکتی ہے۔یہ لوگ ممکنہ طور پر واپس آنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ااور اگر یہ واپس آئے تو یہ اس وقت سے بھی زیادہ انتہا پسند ہوں گے جتنے ملک سے باہر جاتے وقت تھے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ انسداد دہشت گردی کے لئے کام کرنے والی ایجنسیاں واپس آنے والے انتہا پسندوں سے کس طرح نمٹیں گی۔برطانیہ میں پولیس یہ اشارہ دے چکی ہے کہ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایسے شہری جنہوں نے شام کا سفر کیا تھا اور وہ اب تک علاقہ میں موجود ہیں، ان میں سے تقریباً100ملک واپسی کی کوشش کر سکتے ہیں۔راب وین رائٹ نے کہا کہ اہم چیز یہ ہے کہ ایسا سسٹم مرتب کیا جائے کہ واپس آنے والے ہر نوجوان کی شناخت اور ان کا جائزہ لیا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ یورپین پارٹنرز سے انٹیلی جنس شیئرنگ کی انتہائی ضرورت ہے تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ نوجوان شام اور عراق میں کیا کر رہے ہیں اور ان کی وطن واپسی کے محرکات کیا ہوں گے۔
تازہ ترین