• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تنقید برائے تنقید کی روش خصوصی تحریر…یوسف عالمگیرین

شومئی قسمت یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ کسی اچھے سے اچھے انسان کے بارے میں بھی کوئی اعتراض یا کوئی الزام سامنے آئے تو لوگ سارے کام کاج چھوڑ کر اس کے پیچھےپڑ جاتے ہیں اور اس کی تذلیل کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ انسان کی اپنی تربیت اور کردار کا امتحان ہو تا ہے کہ اُس کے استعمال کردہ لفظ اور جملے اُس کی اپنی شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی دوسرے سے کتنا مخلص ہے اس کا اندازہ بھی اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی مشکل یا بحران کا شکار ہوتا ہے۔ ان دنوں اردو ادب، صحافت اور ملک کی ممتاز شخصیت عطاء الحق قاسمی میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ویسے وہ کب میڈیا کی زینت نہیں تھے۔ وہ اس وقت بھی ٹاپ میڈیا مین تھے جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا اتنا طاقتور نہیں ہوا تھا۔ لوگ ان کے کالم ’’روزن دیوار سے‘‘ کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ وہ ایم اے اردو کرنے کے کے بعد نوائے وقت میں سب ایڈیٹر رہے پھر امریکہ چلے گئے۔ لیکن جلد ہی امریکہ کی چکاچوند زندگی چھوڑ کر وطن واپس آ گئے اگروہ امریکہ میں رہتے تو زیادہ آسودہ زندگی گزارتے مگر انہوں نے پاکستان واپس آکر بہت محنت کی۔ ایک کالج میں لیکچرار کے عہدے سے خدمت کا آغاز کیا۔ نوائے وقت میں ایک طویل عرصہ کالم لکھا اور پاکستان کے محبوب ترین کالم نگاروں میں رہے اور اب بھی ہیں۔عطاءالحق قاسمی ایک بڑے ادبی قد کاٹھ کا میگزین بھی مسلسل نکالتے رہے ہیں۔ ناروے میں سفیر مقرر ہوئے تو پہلی مرتبہ ناروے سے براہ راست پاکستان کے لئے فلائٹ کا آغاز ہوا جس سےناروے اور یورپ میں مقیم تارکین وطن کو بہت فائدہ پہنچا۔ اسی طرح جب اُنہیں چیئرمین پی ٹی وی مقرر کیا گیا تو علمی و ادبی حلقوں نے اس امر کو بہت سراہا کہ انہوں نے خواجہ اینڈ سنز سمیت متعدد بہترین ٹی وی ڈرامے دیئے۔ اُنہیں ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں بطور مہمان مدعو کرنا اور اُن سے ا سکرپٹ رائیٹنگ کروانا ٹی وی پروڈیوسرز کا ایک خواب ہوتا تھا کہ لوگ عطاء الحق قاسمی کی باتیں اور تجربات سن کر خوشگواری محسوس کرتے۔ یوں عطاء الحق قاسمی نہ صرف اپنے سے بڑوں، ہم عصروں بلکہ بعد میں آنے والی نسلوں کے بھی پسندیدہ نثر نگار، ڈرامہ نگار، کالم نویس، شاعر اور ایک معتبر ادبی شخصیت کے طور پر دلوں میں بستے رہے ہیں اور اب بھی بستے ہیں ان کے مداح صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔ الغرض چیئرمین پی ٹی وی کے طور پر اُن کے تقرر کو خوش آئند قرار دیا گیا۔ انہوں نے پی ٹی وی کے پرانے دور کے معروف ڈراموں اور پروگراموں کو از سر نو ناظرین تک پہنچایا۔ مختلف ادبی پروگرام شروع کئے۔ جس میں سے ایک پروگرام کے وہ خود بھی میزبان رہے اور اس میں ملک کے چوٹی کے ادیبوں، شاعروں اور شخصیات کو بلایا اور ان کے تجربات سے لوگوں کو متعارف کرایا۔ لیکن ان پروگراموں اور عطاء الحق قاسمی کی دیگر خدمات کو لوگوں نے اس وقت ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا جب اعلیٰ عدالت نے عطاء الحق قاسمی کی بطور چیئرمین تعیناتی سے متعلق کیس ٹیک اپ کیا۔ عدالتیں یقینا سپریم ہیں اور وہ جس معاملے کو بھی مناسب سمجھیں اس کی چھان بین کا حق رکھتی ہیں اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ عدالتوں کی کارروائی کو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریعے ’چسکے‘ لے لے کر عطاء الحق قاسمی کی شخصیت کو تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسا شاید صرف پاکستان ہی میں ہوتا ہے کہ عدالتوں میں کوئی کیس چل رہا ہو تو مختلف گروہ اور لوگ عدالتوں کی کارروائی کو سیاق و سباق سے ہٹا کر اس انداز سے لوگوں تک پہنچانا شروع کردیتے ہیں جس سے نہ صرف وہ شخصیت جس پر ابھی صرف الزام ہے کی تضحیک ہوتی ہے بلکہ عدالتوں کے حوالے سے بھی اچھا تاثر نہیں بنتا۔ عدالتوں کے فیصلے بولا کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں میڈیا بولتا ہے اور ٹکا کر بولتا ہے جبکہ عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ عدالتوں کا ایک تقدس ہے۔ صرف عدلیہ سے وابستہ اداروں کی جانب سے ایشو کردہ پریس ریلیز، بیان یا کسی فیصلے ہی کو خبروں کا حصہ بنانا چاہئے۔ بہرطور ان دنوں اخبارات کی بعض خبریں پڑھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ عطاء الحق قاسمی خدانخواستہ انتہائی ’’بُرے‘‘ انسان ہیںاور جتنا انہوں نے ملک کو لوٹا ہے کوئی اور اتنی لُوٹ مار نہیں کر سکا۔ کوئی بزنس مین، کوئی لینڈ گریبر بھی اُن کی لوٹ مار کا ریکارڈ نہیں توڑ سکا۔ حتیٰ کہ بطور چیئرمین اُن کے آفس کے لئے کوئی بھی خریدی گئی چیز عطاء الحق قاسمی کی ’’کرپشن‘‘ قرار دی جا رہی ہے اور میڈیا اس کو اچھال رہا ہے۔ ہاں اگر عدالتیں اپنے کسی فیصلے میں یہ باتیں establish کر دیں تو وہ پھر بعد کی بات ہے۔ لیکن ایسے حالات میں کہ جب ابھی عدالتی کارروائی جاری ہے تو اس قسم کی خبریں تضحیک کے سوا کچھ نہیں۔ میڈیا میں عطاء الحق قاسمی کے بطور چیئرمین پی ٹی وی تعیناتی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ وہ اس عہدے کے لئے موضوع ترین شخصیت تھے۔ اردو ادب کی متعدد کتابوں کے مصنف، پی ٹی وی کے بیسیوں ڈراموںکے خالق، صحافتی اعتبار سے ایک بڑا کالم نگار اگر ایسے عہدوں کے لئے اہل نہیں تو پھر اور کون ہو سکتا ہے؟ بہرکیف اس امر کا تعین بھی اگر ہوتا ہے تو وہ صرف اور صرف اعلیٰ عدالتوں کا اختیار ہے ، شخصیات اور مختلف اداروں کی تضحیک کرنے والےسوشل میڈیا ایکسپرٹس کو اس کی اجازت ہرگز نہیں دی جانی چاہئے کہ یہ روایت ملک میں بگاڑ ہی کا باعث بن رہی ہے اور کوئی مثبت راہ متعین نہیں ہو پا رہی جو یقینا ًایک قابل تشویش امر ہے۔
تازہ ترین