• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائد اہلحدیث علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒ کی شہادت تحریر: مجیب الرحمن شامی

علامہ احسان الٰہی ظہیر اس دنیا سے یوں رخصت ہوئے کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ ایک دنیا کی دنیا لٹ گئی۔ وہ صرف چھیالیس سال کے تھے لیکن چھیا لیس برسوں میں صدیوں کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ ان کی خطابت ، ذہانت، فراست اور لیاقت نے انہیں و ہاں پہنچا دیا تھا جہاں پہنچنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔ علامہ صاحب چند روز پہلے ہنستے مسکراتے بھلے چنگے راوی پارک لاہور میں ایک جلسے میں خطاب کر نے گئے تھے کہ وہاں بم کے دھماکے نے نقشہ پلٹ دیا۔ جلسہ اس حال میں منتشر ہوا کہ علامہ صاحب خون میں لت پت میواسپتال پہنچا دئیے گئے۔ ان کے کئی عزیز ساتھی شدید زخمی ہو ئے۔ چند جانثار کارکن چل بسے، بم دھماکے نے زندگی کا پیغام دینے والے کی زندگی پر حملہ کر دیا تھا۔ یزدانی صاحب جمعیت اہل حدیث کے جلسوں میں علامہ صاحب سے پہلے تقریر کر تے تھے۔ ان کی تقریر سماںباندھ دیتی تو علامہ صاحب اسٹیج پر آکر سماں کو آسمان کی وسعتوں سے ہمکنار کر دیتے ، جلسہ ء حشر میں روانہ ہونے کے لیے بھی یزدانی صاحب نے پہل کی اور علامہ صاحب سے پہلے وہاں پہنچ گئے۔ زخموں کی تاب نہ لا کر اپنے مداحوں اور نیاز مندوں ، اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور اہلیہ کو وہ زخم دے گئے کہ جو مند مل نہ ہو سکے گا۔ علامہ صاحب کی حالت عام لوگوں کو خاصی سنبھلتی ہوئی نظر آتی تھی۔ وہ ہوش میں بھی آگئے تھے، اپنے تیمارداروں سے باتیں بھی کرنے لگے تھے۔ رُک رُک کر ہی سہی آہستہ آہستہ آواز میں ہی سہی وہ اپنی بات کبھی نہ کبھی کہتے تھے اور بعض اخباری نمائندوں کے سوالوں کے جوابات بھی دے گزرتے تھے۔ عام خیال یہ تھا کہ علامہ صاحب خطرے سے باہر ہیں لیکن ان کے معالجوں کو اطمینان نہیں تھا۔ ان کو علاج کے لیے سعودی عرب لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ وہاں پہنچتے ہی چند گھنٹوں بعد اپنی جان کا نذرانہ دے کر اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ میت مدینہ لے جائی گئی اور جنت البقیع میں ان کے جسد خاکی نے جگہ پائی۔
تازہ ترین