• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور امریکی نائب صدر مائیکل پینس کے درمیان گزشتہ روز واشنگٹن میں ایک غیر شیڈولڈ ون ٹو ون ملاقات میں افغان تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے طریق کار پر گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اس حقیقت کا احساس ہوگیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے جنگ کے بجائے مذاکرات ہی کا راستہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے اور اس عمل میں پاکستان کو نظر انداز کرنے اور دیوار سے لگانے کی پالیسی کے بجائے اسے شامل کرنا اور اس کا تعاون حاصل کرنا لازمی ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں اس ملاقات میں رہنماؤں نے افغانستان پراپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی۔ وزیر اعظم عباسی نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا ملک افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں ہوسکتا کیونکہ اس سے پاکستان کو براہ راست فائدہ ہوگا۔دونوں رہنماؤں نے پاک امریکہ روابط کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا اور اسے افغان مسئلے کے حل کے لیے ضروری قرار دیا۔سفارتی مبصرین کی جانب سے پاکستان اور امریکا کے تازہ رابطوں کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے گزشتہ برس کے اجلاس کے تسلسل میں دیکھا جارہا ہے جس میں امن مذاکرات کی بحالی کو ضروری قرار دیا گیاتھا۔ یہ ملاقات اگرچہ پاکستان کی درخواست پر ہوئی لیکن صدر ٹرمپ اور دیگر امریکی عہدیداروں نے گزشتہ اگست میں نئی امریکی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد سے پاکستان کے ساتھ بالعموم جو درشت رویہ اپنائے رکھا اور اس دوران باہمی تعلقات میں جو اتار چڑھاؤ آتے رہے ،ان کے تناظر میں وزیر اعظم عباسی اور امریکی نائب صدر کی مثبت ماحول میں ہونے والی اس ملاقات کو امید افزاء قرار دینا غلط نہ ہوگا۔ بعد ازاں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کانگریس کے رکن ٹیڈ یوہو اور بریڈ شیرمین سے بھی ملاقات کی اور پاک چین تعلقات کے حوالے سے ان کے اظہار تشویش پر انہیں اطمینان دلایا کہ یہ تعلقات امریکہ کے خلاف نہیں لہٰذاواشنگٹن کو اس بارے میں فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔واضح رہے کہ وزیر اعظم عباسی کی ان ملاقاتوں سے چند روز پہلے پاکستانی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے واشنگٹن کے دوروزہ دورے میں وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ میں دو اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شرکت کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں اجلاس بہت اچھے رہے،اور ان میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ امریکی حکام پاکستان کے ساتھ مثبت بنیادوں پر روابط کا سلسلہ آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں امریکہ کی سیاسی اور عسکری قیادت کے بعض نمایاں ارکان نے اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے اور افغان طالبان کو بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے مثبت کوششیں کررہا ہے۔یہ صورت حال اگرچہ افغان امن کے حوالے سے خوش آئند ہے لیکن اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے امریکہ کے موجودہ مثبت طرز عمل میں تسلسل اور استحکام کا اہتمام ناگزیر ہے ۔ ماضی میں پاکستان اور چین کی کوششوں سے شروع ہونے والے امن مذاکرات امریکی اقدامات کے باعث سبوتاژ ہوتے رہے اور دوسرے فریق کو بے اعتمادی میں مبتلا کرتے رہے ہیں۔ روس ، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اب افغان امن کے لیے مذاکراتی عمل کی بحالی کی خواہشمند اور اس کے لیے تعاون پر آمادہ ہیں، صدر اشرف غنی طالبان کی سیاسی حیثیت تسلیم کرکے انہیں امن بات چیت کی دعوت دے چکے ہیں، پاکستان ، چین ، روس اور خطے کے دوسرے ملکوں نے ان کی اس پیشکش کو دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے اس کا بھرپور خیر مقدم کیا ہے ۔ ان حالات میں اگر امریکی انتظامیہ افغانستان میں اپنی فوجی ناکامی کے لیے کسی قربانی کی بکرے کی تلاش ، اس کے لیے پاکستان کو دہشت گردوں کا معاون ملک قرار دلوانے نیز بھارت کو خطے کی بالادست طاقت بنانے کی کوششوں کو ترک کردے اور افغان تنازع کے، فوجی حل کے بجائے یکسوئی کے ساتھ سیاسی حل کی تلاش کا راستہ اختیار کرے تو مسئلے کے پرامن طور پر طے پاجانے کے امکانات یقینا بہت جلد روشن ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین