• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو طرفہ تجارت کسی بھی معیشت کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتی بشرطیکہ اس میں توازن کا خیال رکھا گیا ہو۔ کسی ملک کی درآمدات زیادہ ہوں اور اس کے مقابلے میں برآمدات کم تو اس سے ادائیگیوں میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے یہ صورت حال بدستور جاری رہنے سے اس ملک کی معیشت غیر مستحکم ہو کر رہ جاتی ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ، بےروزگاری، مہنگائی اور بے ہنگم ٹوٹتی پھوٹتی عارضی مالیاتی پالیسیاں ایسی ہی صورت حال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ 2006میں پاکستان اور چین کے درمیان ایک معاہدہ ایف ٹی اے (فری ٹریڈ ایگریمنٹ) فیز ون کے نام سے ہوا تھا ۔اطلاعات کے مطابق ماہ رواں کے اواخر میں پاکستان چین کے ساتھ اس معاہدے کے فیز ٹو کو حتمی شکل دے گا جس کے تحت ٹیرف کی زد میں آنے والی سات ہزار میں سے صرف 14 سو اشیا پر چین کو مزید تجارتی مراعات نہیں دی جائیں گی باقی تمام 5230 اشیا پر حکومت پاکستان درآمدی ڈیوٹی نہیں لے گی جو اس وقت تین سے لے کر 50فیصد تک وصول ہو رہی ہے۔ ان اشیا میں زیادہ تر تیار شدہ اور نیم تیار شدہ مصنوعات شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستانی عوام کے لئے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ اس سے انہیں چین سے درآمد کی جانے والی اشیا سستی ملیں گی تاہم اس سے مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچے گا۔ جو نامساعد اقتصادی حالات کی وجہ سے بتدریج بند ہو رہی ہیں پاکستان کی برآمدی اشیا معیار کے اعتبار سے بین الاقوامی مارکیٹ میں دوسروں سے کم نہیں تاہم گزشتہ برسوں کے دوران اندرون ملک توانائی کے بحران اور پیداواری لاگت میں اضافہ اور دوسری طرف عالمی سطح پر مقابلے کے رجحان اور اوپر سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے پیش نظر پاکستانی ایکسپورٹر کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے، ان حالات میںاقتصادی ماہرین کی کانفرنسیں منقعد ہونی چاہیئں اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے چاہئیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین