• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری ممالک میں اسمبلی تحلیل کرنا وزیراعظم کا حق سمجھا جاتا ہے۔جب بھی منتخب وزیراعظم یہ سمجھے کہ اسے تازہ مینڈیٹ کی ضرورت ہے تو وہ اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات کا اعلان کردیتا ہے۔برطانیہ سمیت دنیا بھر میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔مگر پاکستان میں یہ جمہوری حق بھی وزیراعظم استعمال نہیں کرسکتا ۔تازہ مینڈیٹ حاصل کرنے کے لئے بھی وزیراعظم کو اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنا پڑتی ہے۔ظاہر ہے کہ منتخب وزیراعظم کو اسمبلی تحلیل کرنے سے قبل معاملات حکومت نگران وزیراعظم کو سونپناہوتے ہیں مگر پاکستان میں نگران وزیراعظم لگانے سے قبل منتخب حکومت کو اپوزیشن کی منتیں کرنا ہوتی ہیں۔اگر اپوزیشن مان جائے تو ٹھیک وگرنہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی سے ہوتا ہوا الیکشن کمیشن کے پاس چلا جاتا ہے۔دنیا بھر میں کہیں بھی عام انتخابات کرانے کے لئے نگران حکومت قائم نہیں کی جاتی۔آمروں کا دیا ہوا فارمولا صرف پاکستان میں نافذ العمل ہے۔دنیا کی کیسی بے بس جمہوریت ہے جہاں پر وزیراعظم تازہ مینڈیٹ کا اختیار بھی استعمال نہیں کرسکتا۔بھار ت دنیا کی بڑی جمہوریت ہے۔مگر بھارت میں نگران دور حکومت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں،صرف عام انتخابات کے دوران چند متعلقہ ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ماتحت چلے جاتے ہیں اور باقی حکومت کا کام جاری رہتا ہے۔یہ صرف پاکستان ہی ہے جہاں پر چھ ماہ کے لئے کوئی حکومت نہیں ہوتی۔عام انتخابات سے تین ماہ قبل حکومت کو مفلوج کردیا جاتا ہے اور ہر قسم کے اشتہار،ترقیاتی کام بند کرنے کا پروانہ تھمادیا جاتا ہے اور تین ماہ نگران حکومت کے ہوتے ہیں۔جسے علم ہی نہیں ہوتا کہ اس نے نگران دور حکومت کے دوران کرنا کیا ہے۔یوں آپ چھ مہینے کے لئے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔
آج پاکستان میں نگران حکومت کے حوالے سے چرچے عروج پر ہیں۔کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ نگران حکومت کا دورانیہ طویل ہوگا اور اس کے لئے ایسی شخصیت کا چناؤ کیا جائے گا کہ مسلم لیگ ن کے اکابرین بھی کچھ نہیں کہہ سکیں گے۔مستنداطلاع ہے کہ پیپلزپارٹی نگران وزیراعظم کے معاملے پر وہی کچھ کرے گی جو سینیٹ انتخابات میں کیا گیا ہے۔وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی طرف سے کسی بھی نام پر اتفاق نہ ہونے کے بعد معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا۔مگر پارلیمانی کمیٹی بھی کسی ایک نام پر متفق نہیں ہوسکے گی۔اس طرح معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سپرد کردیا جائے گا۔مفروضہ ہے کہ اسی دوران ایک درخواست عدالت میں دائر کی جائے گی۔درخواست میں موقف اختیار کیا جائے گا کہ اپوزیشن اور حکومت کے نامزد کردہ امیدوار اچھی شہرت کے حامل نہیں ہیں ۔عدالت معاملے کا نوٹس لے اور کسی غیر جانبدار شخص کو نگران وزیراعظم مقرر کرے۔مفروضہ یہ بھی ہے کہ نگران دور حکومت تین ماہ کے بجائے 2سال پر محیط ہوگا۔دو سال کے دوران مسلم لیگ ن کی ساکھ ایسی خراب کی جائے گی کہ مسلم لیگ ن کے اکابرین انتخابی مہم چلانے کے قابل نہیں رہیں گے۔مسلم لیگ ن سوشل میڈیا سیل کی روح رواں مریم نواز صاحبہ کو کسی ایک ریفرنس میں سزا ہوچکی ہوگی۔سوشل میڈیا پر کوئی مہم چلانے والا نہیں ہوگا۔سابق وزیراعظم نوازشریف نیب ریفرنسز میں سزا کے بعد قید ہونگے اور انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہونگے۔ایسے میں عام انتخابات کرائے جائیں گے۔آج کل وفاقی دارالحکومت میں اسی قسم کی عجیب و غریب تھیوریاں زیر بحث ہیں۔کہا جاتا ہے کہ نگران وزیراعظم کی ذمہ داری مسلم لیگ ن کے ہی کسی صف اول کے رہنما کو سونپی جائے گی۔تاکہ مسلم لیگ ن اخلاقی طور پر کمزور ہوجائے اور نگران وزیراعظم پر انگلی نہ اٹھاسکے۔سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو فیورٹ امیدوار سمجھا جارہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے پنڈتوں کی رائے ہے کہ چوہدری نثار یا کوئی بھی ایسا سیاستدان جو عملی سیاست میں حصہ لے رہا ہے۔وہ تین ماہ کے لئے کبھی بھی وزیراعظم نہیں بنے گا۔کیونکہ نگراںدور میں وزیراعظم بننے کا مطلب ہے کہ وہ عملی سیاست سے باہر ہوجائے۔اس لئے نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے موقع پر ہی پتہ چل جائے گا کہ حلف اٹھانے والا وزیراعظم دو ماہ کے لئے آیا ہے یا دو سال کے لئے۔بہرحال وفاقی دارالحکومت کی فضائیں کسی اچھے کل کی نوید نہیں سنارہیں۔
قرآن پاک کی سورہ بقرہ کی ایک آیت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ایک چال تم چلتے ہو اور ایک چال میں چلتا ہوں۔مگر کامیاب صرف اللہ ہی کی چال ہوتی ہے۔کچھ طاقتورلوگ بہت مضبوط ہیں،سیاسی طور پر اپوزیشن کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے۔عدالتی فیصلے بھی مسلم لیگ ن کے خلاف آرہے ہیں۔ایسے میں کیا مسلم لیگ ن کو شکست تسلیم کرکے گھر بیٹھ جانا چاہئے۔آندھی تیز ہو تو بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا مگر حکمت سے دفاع ضرور کرنا چاہئے۔آج کے دن تک مسلم لیگ ن کے اکابرین نے نگران دور حکومت کے حوالے سے کوئی سنجیدہ حکمت عملی تیار نہیں کی۔حالانکہ بہتر چال سے بازی پلٹی بھی جاسکتی ہے۔نگران دور حکومت کے حوالے سے بہتر منصوبہ بندی اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کرکے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔دنیا بھر کا اصول ہے کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی ہوتا ہے۔مسلم لیگ ن کو ہر قیمت پر پیپلزپارٹی سے معاملات ٹھیک کرنے چاہئیں۔عین ممکن ہے کہ پی پی پی اس بار صلح کی کوئی بڑی قیمت وصول کرے مگر جو بھی قیمت ہوگی وہ کچھ قوتوں کے سامنے جھکنے سے بہتر ہوگی۔کبھی بھی سیاسی مسائل کو انتظامی طریقے سے حل کرنا اچھا نہیں ہوتا۔زرداری صاحب کوجس عہدے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے ،مسلم لیگ ن ایک قدم آگے بڑھ کر آفر کرے۔اگر زرداری ایک نامور بزنس مین کو اپنے حق میں ا ستعمال کرسکتے ہیں تو مسلم لیگ ن کو اسے اپنے خلاف نہیں استعمال ہونے دینا چاہئے۔
دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے۔اگر مسلم لیگ ن کے سربراہ اداروں سے فوری مفاہمت نہیں چاہتے تو کم ازکم سیاسی لوگوں سے مفاہمت ضرور کریں۔یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہوچکے ہیں اور ان سے بات چیت بے سود ہے۔سیاست کچھ لو اور کچھ دو کا نام ہے۔مسلم لیگ ن کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے تو کرنی چاہئے۔پی پی پی سے مفاہمت میں ہی مسلم لیگ ن کی سیاسی بقا ہے۔

تازہ ترین