• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جام ساقی تو جامِ انقلاب لنڈھا گئے اور تشنگی انقلاب ہے کہ مٹنے کو نہیں۔ اور پھر سے ہمتِ کفر، جرأتِ تحقیق اور دستِ قاتل کو جھٹکنے کی تمنا ہے کہ تھمنے کو نہیں۔ بالشویکی انقلابی لہر کے بچے بیسویں صدی میں جگمگانے کے بعد اکیسویں صدی کے بلیک ہول میں کہیں گم ہوئے جاتے ہیں۔ انقلابیوں کی کئی نسلوں نے سرمایہ دارانہ استحصال کے خاتمے اور محنت کش عوام کی نجات کے لئے کون سے زمین و آسماں تھے کہ زیرزبر نہ کیے۔ روس میں اکتوبر انقلاب نے نہ صرف زار شاہی روس کی کایا پلٹ دی بلکہ سارے مشرق میں قومی آزادیوں کی لہر کو ایسی توانائی بخشی کہ نوآبادیاتی نظام قصہ پارینہ ہوا۔ انقلابِ چین سے کیوبا تک ہر طرف ہتھوڑے و درانتی کا نشان اور سُرخ پھریرے لہرا گئے۔ فسطائیت کو شکست ہوئی، ایک دو قطبی دُنیا وجود میں آئی اور سرد جنگ کے ہاتھوں کہیں سامراج دشمن قوم پرست، اور کہیں مارکس وادی چھا گئے تو کہیں انقلابیوں کا قتلِ عام ہوا جیسے انڈونیشیا، چیلے، سری لنکا اور درجن بھر دوسرے ممالک میں ترقی پسندوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ برصغیر کے مقدر میں قومی آزادی کی لہر آئی بھی تو عوامی بغاوتوں کے اسقاط اور فرقہ وارانہ تقسیم سے گہنا کر۔ پھر بعد از نوآبادیاتی دور میں جو دونوں ملکوں میں حشر بپا ہوا اور جس طرح ردّ انقلاب رجعتی قوتیں حاوی ہوئیں وہ بھی ایک طویل داستانِ رنج و الم ہے۔ بھارت میں تو نہرو کے جعلی سوشلزم کے بھرم کو ٹوٹتے ٹوٹتے بہت وقت لگا اور اس کے انہدام سے برآمد ہوئی بھی تو تنگ نظر ہندو قوم پرستی کی فسطائی ہندوتوا۔ پاکستان میں سرد جنگ سے مراعات یافتہ فوجی و سول حکمرانوں نے کمیونسٹ پارٹی، ترقی پسند تنظیموں اور عوامی جتھہ بندیوں کو کالعدم کرتے ہوئے ہزارہا انقلابیوں کو قید و سلاسل کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جام ساقی بھی اُنہی میں سے ایک تھے جو فقط جنتا کے دو آنسوؤں کو پونچھنے کی خاطر خود اپنے پیغام پہ فدا ہو گئے۔
جب سوویت یونین کا انہدام ہو رہا تھا تو پاکستانی بالشویک اور مینشویک باہم دست و گریباں ہو کر بکھر گئے۔ جب اکتوبر انقلاب کی آخری پریڈ دیکھنے کے لئے مجھے مدعو کیا گیا اور میں بوڑھی امریکی کامریڈوں کے ساتھ ماسکو کے سُرخ چوک میں بیٹھا سخت سردی میں خون گرمانے کے جتن کر رہا تھا تو میں نے جب امریکی خاتون کامریڈ سے کہا کہ کامریڈ شاید ہم اکتوبر انقلاب کی آخری پریڈ دیکھ رہے ہیں تو وہ بلبلا کر رو پڑی تھی اور میں نے گرمجوشی سے اُس انقلابی اماں کا ہاتھ تھام کر صبرِ جمیل کی دُعا کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سوویت یونین میں گوربا چوف کی گلاس ناس (کھلا پن) اور پریسترائیکا (تعمیر نو) کا خلجان مچا تھا۔ سب تاریخی انہدام کو دیکھ رہے تھے اور کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ کوشش کی کہ مشرقی جرمنی اور چیکوسلواکیہ جاؤں، لیکن وہاں سے بھی منظر بدلنے کی خبریں آ رہی تھیں۔ واپسی پہ لندن رُکا جہاں کمیونسٹ پارٹی آف گریٹ بریٹن (CPGB) کی بیتالیسویں (42) کانگریس بپا تھی۔ (یہاں یہ کہتا چلوں کہ سی پی جی بی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی مدر پارٹی تھی جو تقسیمِ ہند پر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی ماں جائی بنی)۔ یہ بھی عجب منظر تھا۔ کانگریس کے افتتاح کے موقع پر یورو کمیونزم کے علمبردار ایک بڑی اسکرین پر چیکوسلواکیہ میں کمیونسٹ حکمرانی کے خاتمے کے مناظر دیکھتے ہوئے جمہوری تبدیلی کا پُرجوش تالیوں سے استقبال کر رہے تھے۔ یہ کانگریس CPGB کی آخری کانگریس ثابت ہوئی اور پارٹی کے خاتمے پر ایک نیو ٹائم مینی فیسٹو جاری کیا گیا کہ کس طرح مقامی آزاد جمہوری انجمنوں کے ذریعے نئے دور کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کام کیا جائے اور فکری و تجرباتی تبادلۂ خیال جاری رکھا جائے۔ لیکن جو بہت دلچسپ بات ہے وہ یہ کہ سوویت کمیونزم کی مارکسی تنقید پہ پھل پھولنے والی یوروکمیونزم کی جماعتیں (جو اُس وقت فرانس اور اٹلی میں بہت بڑی پارٹیاں تھیں)، نیولیفٹ کے فکری و تنظیمی حلقے اور عظیم انقلابی ٹراٹسکی کے پیرو عالمی انقلابی، سوویت یونین کے منہدم ہوتے ہی رفتہ رفتہ تحلیل ہوتے چلے گئے۔ بھلا ماضی کی تنقید پہ اور انیسویں صدی کے وسط میں پیش کردہ کمیونسٹ مینی فیسٹو یا پھر اس کے کسی چربے کی بنیاد پر آپ کیسے نئے زمان و مکان کو جانچے بنا نئی فکری اساس تعمیر کر سکتے ہیں اور بغیر نئی اور پیچیدہ تر سماجی بنت کو جانے بنا کسی نئی انقلابی حکمتِ عملی کو استوار کر سکتے ہیں؟
بعد از نو آبادیاتی دور میں اور گہنائی ہوئی آزادی ملنے پر جو بٹوارہ ہوا، اس کے نتیجے میں کمیونسٹوں کی بھاری تعداد فرقہ واریت کی نذر ہو کر ہجرت پہ مجبور ہوئی۔ جو بچا کھچا ترکہ ملا بھی تو نہایت نحیف۔ پھر بھی کامریڈ سجاد ظہیر اور اُن کے ساتھیوں نے پابندیوں اور انتہائی مشکلات کے باوجود کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو پھر سے منظم کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ ابھی یہ کام جاری تھا کہ راولپنڈی سازش کیس کا بم پھٹا اور کمیونسٹ پارٹی اور اس کی تمام ملحقہ تنظیمیں کالعدم قرار دے دی گئیں۔ یہ بڑی ابتلا کا دور تھا اور اس میں کیا کیا ظلم تھا جو نہ ہوا اور انقلابیوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری۔ تاریخ نے پھر کروٹ لی اور 1968ء میں ایک عظیم عوامی اور جمہوری اُبھار نے ملک کے دونوں بازوؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہر طرف سوشلزم آوے آوے کے نعرے تھے اور رجعتی قوتیں پسپائی پہ مجبور ہوئیں۔ اس عوامی اُبھار کے جوار بھاٹے سے میری نسل کے سماج وادی پیدا ہوئے، جن میں بہت سوں نے سب کچھ تیاگ کر محنت کش عوام سے جڑنے اور انہیں منظم کرنے کی راہ لی۔ پھر مارشل لالگا، انتخابات ہوئے اور ملک کے دونوں حصوں میں ترقی پسند جماعتیں کامیاب ہوئیں۔ برچھی کو پرچی پر فوقیت دینے والوں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے باوجود خود کو پارلیمانی سیاست کے گناہِ صغیرہ سے محفوظ رکھا اور سبھی راہیِ راہِ عدم ہوئے۔ یہ چینی روسی جھگڑا بھی اُس سے پہلے تقسیم کا باعث بن چکا تھا اور اس حماقت کا ہم سب شکار ہوئے۔ بھٹو کے آمرانہ پاپولزم کے ہاتھوں ایک عظیم انقلابی عوامی لہر کا اسقاط ہوا اور پھر آئی بھی تو جنرل ضیاء الحق کی بدترین رجعتی آمریت۔ بکھرے ہوئے لیفٹ کے لئے یہ وقت بڑا کڑا تھا جبکہ سبھی اپنی اپنی صلیبوں پہ مصلوب ہونے پہ بضد۔ ایسے میں جیل میں مقید ساتھیوں اور جلاوطن دوستوں میں مکالمہ ہوتا رہا اور بہت سے گروپ ایک ہی پارٹی میں شامل ہو کر پھر سے بکھر گئے۔ اور رہی سہی اُمید سوویت یونین کے ٹوٹنے سے بکھر کر رہ گئی۔ کہانی لمبی ہے اور شکست کی راگنی کو کوئی کیوں سنے گا؟
جب ہم کامریڈ جام ساقی کی یادیں تازہ کر رہے تھے تو دُنیائے سائنس کا ایک اور درخشندہ ستارہ ڈوب گیا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے تو اپنے پیش رو آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت اور علمِ طبیعیات میں کیے گئے انقلابی اضافوں پہ کام کرتے ہوئے بلیک ہولز کا پتہ تک لگا لیا اور ایسی جسمانی معذوری کے ہوتے ہوئے کہ سوائے ایک آنکھ کے پٹھے کے اُن کے جسم کا کوئی عضو کام نہ کرتا تھا۔ ہاکنگ نے بلا کی ذہنی جستجو سے جسمانی حدود کو شکست دی اور کائنات بارے مافوق الفطرت واہموں کو ہمیشہ کے لئے پاٹ دیا۔ ایسی جسمانی نحیفی اور غضب کی ذہنی زقندیں اور کائنات بارے دریافتیں۔ واہ کیا کمال ہے۔ زمان و مکان کی بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم مارکس وادی اور ترقی پسند ابھی بھی انیسویں صدی کے وسط کے فکری، معاشی اور انقلابی نظریوں کی دھول چاٹنے میں ایسے لگے ہیں جیسے کہ یہ کوئی آسمانی صحیفے ہوں۔
بات پیرس میں مزدوروں کے انقلابی کمیون سے، اکتوبر انقلاب اور انقلابِ چین سے ہوتی ہوئی کہاں سے کہاں پہنچ گئی کہ ’’دوام اک تغیر کو ہے زمانے میں ‘‘ اور اس جدلیاتی داروگیر سے مارکسزم بھی ماورا نہیں۔ ہم اب بھی گزرے دور کے فکری رجحانوں کی جویں نکالنے میں ہمہ تن مگن۔ بھلا تاریخ کو اس سے کیا غرض؟ اور شکست کے زخموں کو چاٹتے ہوئے اور فکری جلی کٹیاں بھگار کر ہم کیونکر پھر سے تاریخ کا ہراول دستہ بننے کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔ ترقی کی سماجیات کے عظیم دانشوروں کی بحث کے نتیجے میں بات مارکس سے رجوع تک پہنچی تھی۔ لیکن، جیسے آئن اسٹائن کے بعد سائنسدان ہاکنگ نے سائنس کے ارتقا کو عالمِ بالا تک پہنچا دیا ہے، مارکس وادی مارکس کے سائنسی کمیونزم کو فکری اعتبار سے کہیں آگے لیجاتے نظر نہیں آ رہے۔ ویسے بھی مارکس سے رجوع کا مطلب یہ نہیں کہ ہم انیسویں صدی کے فکری و طبقاتی مجادلوں میں گم ہو کر رہ جائیں، یا پھر اکتوبر انقلاب کی باہمی نظری آویزشوں میں سر کھپاتے کوچ کر جائیں۔ بلکہ ضرورت ہے کہ مارکس کی انقلابی فکری روایت کو اکیسویں صدی کی حقیقتوں اور سماجی کایا پلٹ کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ لیکن وقت آپ کا، میرا انتظار نہیں کرتا۔ آپ آگے نہیں بڑھیں گے یہ آگے بڑھ جائے گا۔ بھئی اپنی اپنی گھریلو نوآبادیوں میں اپنا اپنا انقلابی رانجھا راضی کرتے رہیں۔ اور اب جب جمہوری تحریک کا اسقاط ہو چلا ہے تو ضرورت ایک کم از کم پروگرام پہ ایک وسیع تر لیفٹ ڈیموکریٹک متبادل کو سامنے لانے کی ہے۔ لیفٹ نہیں ہوگا تو فسطائیت جمہوریت کا متبادل بنے گی اور جمہوریت داراشکوہ اور اورنگ زیب کی لڑائیوں کی نذر ہوتی رہے گی۔ جیسے کیسے انتخابات اگر ہوئے توسر سے گزر جائیں گے ہی، بات آگے کی سوچنے کی ہے۔ایک کم از کم سماجی جمہوری متبادل کے طور پر متحدہ جمہوری بائیں بازو کے سامنے آنے کا وقت ہے۔ جام ساقی تو جامِ انقلاب لنڈھا گئے اور تشنگی انقلاب ہے کہ مٹنے کو نہیں۔ اور پھر سے ہمتِ کفر، جرأتِ تحقیق اور دستِ قاتل کو جھٹکنے کی تمنا ہے کہ تھمنے کو نہیں۔ فیض نے اس وقت کے لئے کہا تھا:
جس دھجی کو گلیوں میں لئے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین